غزہ جنگ کے دوران سامنے آنے والے بدنام زمانہ ’ جرنیلی منصوبے‘ کے انجینئر اسرائیلی جنرل نے غزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست کا اعتراف کرلیا ہے۔
جنرل گیورا ایلانڈ نے بتایا کہ غزہ میں جو کچھ ہوا اور جو منظر نامہ دیکھا گیا وہ اسرائیل کی بدترین ناکامی اور حماس کی فتح ہے۔جنرل گیورا لائنڈ شمالی غزہ کا محاصرہ اور وہاں بھوک وپیاس کی پالیسی کا ڈیزائنر ہے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے صہیونی جنرل نے بتایا کہ اسرائیل نہ صرف حماس کو شکست دینے، یرغمالیوں کو آپریشن کے ذریعے رہا کروانے اور حماس کے مکمل خاتمے کے دعووں میں ناکام ہوا ہے بلکہ حماس آج بھی اپنی پوزیشن پر قائم ہے۔ یہ اسرائیل کی واضح جنگی ناکامی ہے۔ جنرل گیورا ایلانڈ نے بتایا کہ جنگ بندی معاہدے میں کوئی شق ایسی نہیں ہے جو حماس کو اپنی نئی صف بندی سے روکے۔ یہ حماس کی کھلی فتح ہے۔ حماس اپنی صفوں کی از سر نو بحال کرے گی اور نئے جنگجو بھرتی کرے گی۔ اس صورت میں اگر اسرائیل دوبارہ کوئی جنگ چھیڑتاہے تو اسرائیل کو جنگ بندی کی خلاف کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ یہ اسرائیل کے لئے بڑی بدنامی ہوگی۔
شامی عوام پر بیتنے والے قیامت خیز 13 برسوں کی سرگزشت (ابوصوفیہ چترالی)
عبرانی میڈیا میں جرنیلی منصوبے کے ڈیزائنر کے منہ سے نکلے ہوئے اس اعتراف کو غیر معمولی طور پر اہمیت دی جارہی ہے جسے عالمی میڈیا نے بھی چلایا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ کار عامیت یاغور نے اسرائیلی جریدے معاریف میں لکھا ہے کہ اسرائیل دشمن (حماس) کے جنگی اور عسکری اسٹڈی میں ناکام ثابت ہوا جس کے باعث اسرائیل کو حماس کے خاتمے میں ناکامی ہوگئی۔ دوسرے اسرائیلی تجزیہ کار بارایل نے ہارٹس میں لکھاہے کہ جنگ بندی کا مطلب غزہ کو دوبارہ حماس کے تسلط میں دینے پر رضامندی کا اظہار ہے۔ لیکن اب حماس پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اور عالمی برادری کی جانب سے قانونی اجازت کے ساتھ غزہ میں انتظامات سنبھالے گی۔

عبرانی میڈیا کے مطابق اس وقت اسرائیل کا قومی منظر نامہ خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے عبارت ہے۔ اسرائیل میں ایک جانب یرغمالیوں کی رہائی پر خوشی منائی منائی جارہی ہے۔ جنگ بند ہونے سے بہت سی پابندیاں اور مشکلات ختم ہونے کی توقع ہے۔ ڈوبتی معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشانی میں کمی آرہی ہے، لیکن دوسری جانب غزہ میں حماس کی موجودگی اور بقاء کے باوجود اسرائیلی فوجی انخلا اور کامیاب رسائی کے بغیر غزہ سے نکلنا اسرائیلی اداروں اور عوامی حلقوں میں بہت اہم موضوع کے طور پر زیر بحث ہے جو اسرائیلی باشندوں کے مزاج میں تلخی کا سبب بنا ہوا ہے۔ جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیل میں پھیلے ہوئی بدمزگی کی ایک وجہ جنگ بندی کے لیے امریکی دباو بھی ہے۔اسرائیلی حکومتی اور ڈپلومیٹک اداروں سمیت میڈیا کا کہناہے کہ امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل کو باقاعدہ مجبور کیا ہے۔ ہفتے کو کابینہ اجلاس میں اسرائیل کے نیشنل سیکورٹی وزیر بن غفیر نے باقاعدہ طنز کرتے ہوئے بتایا کہ کہیں امریکی صدر کو ناموں میں تشبیہ کی غلطی تو نہیں ہوئی۔ جو دباو انہیں حماس کے خلاف استعمال کرنا تھا وہ اسرائیل کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا میں متعدد تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطی سٹیف ویٹکوف نے یہودیوں کے مقدس دن کا احترام کبھی نہیں کیا اور دوحہ سے ہفتے کے روز صبح اسرائیلی وزیراعظم کو کال کرکے جنگ بندی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام لیکر اسرائیل پہنچنے کی اطلاع کردی۔
اسرائیلی دائیں بازو کے رائٹر بن درود نے لکھا ہے کہ ہم سب ایک قوم ہیں ،ہم خوشی بھی ساتھ منارہے ہیں اور غم کے آنسو بھی ایک ساتھ بہارہے ہیں۔ ان کے مطابق جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کرنے والے کسی حد تک درست ہیں کیونکہ یہ معاہدہ کرنے کے بعد اسرائیل ایک ایسی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے جو اسرائیل کی قوت اور توانائی کو بہت بری طرح متاثر کررہی ہے۔