نو منتخب لبنانی صدر کا سیاسی و اقتصادی تعمیرِ نو کے عزم کا اِعادہ ۔ علی ہلال

مشرقِ وسطیٰ کے اہم عرب ملک لبنان کی پارلیمان نے دو سال کے دوران 12 ناکام کوششوں کے بعد جمعرات کو لبنان کے آرمی چیف جوزف عون کو صدر منتخب کر لیا ہے۔ جوزف عون ووٹنگ کے پہلے راو¿نڈ میں انتخاب کے لیے درکار 86 ووٹ حاصل نہیں کرسکے تھے، تاہم دوسرے راو¿نڈ میں جوزف عون درکار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔دو سال قبل صدر مشعل عون کے عہدے کی مدت اکتوبر 2022ءمیں ختم ہونے کے بعد سے صدر کا عہدہ خالی تھا۔ لبنان کے نو منتخب صدر عماد جوزیف عون امریکا اور سعودی عرب کے پسندیدہ امیدوار کے طور پر بھی صدر کے امیدوار تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 14 ماہ جاری رہنے والی لڑائی کے بعد لبنان کی تعمیرِ نو میں امریکا اور سعودی عرب کی معاونت اہم ثابت ہوگی۔
لبنان کے جنوب میں سرگرم عسکری مزاحمتی تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2023ءسے عسکری جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا، جو 23 ستمبر 2024ء سے باقاعدہ اسرائیل کی زمینی فوجی کارروائی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ لبنان میں امریکا اور فرانس کی سرپرستی میں 6 نومبر کو جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا۔ 60 روز پر محیط یہ جنگ بندی معاہدہ 27 جنوری کو پورا ہورہا ہے جس کی رو سے حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ لبنان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے دریائے لیطانی کے جنوبی علاقوں کو خالی کردیں۔ خیال رہے کہ دریائے لیطانی اسرائیلی سرحد (مقبوضہ فلسطین) سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ لبنان کے اس جنوبی حصے میں کسی قسم کی مزاحمتی تنظیم کی موجودگی صہیونی ریاست کی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
لبنان کو صدارتی کرسی خالی ہونے کے باعث شدید سیاسی و اقتصادی بحران کا سامنا رہا۔ لبنان میں جمعرات 9 جنوری کو صدر کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ کا 14 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں جوزف عون پہلے مرحلے میں مطلوبہ ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تاہم دوسرے مرحلے میں وہ کامیاب ہوگئے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کے تیرہ اجلاس ناکامی سے دوچار ہوئے تھے جو صدر کے انتخاب میں ناکام رہے تھے۔ لبنان میں صدارتی امیدوار کے طور پر متعدد امیدوار میدان میں آئے تھے جن میں عماد جوزیف، لبنانی پارٹی لبنانی فورسز کے سربراہ سمیت جعجع اور حزب اللہ کے اہم حلیف سابق وزیر سلیمان فرنجیہ سرفہرست تھے۔ سلیمان فرنجیہ ایک چھوٹی مسیحی جماعت کے رہنما ہیں جس کی حمایت کا اعلان حزب اللہ نے کیا تھا۔ لبنانی میڈیا کے مطابق سلیمان فرنجیہ کے سابق شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ قریبی تعلقات تھے ، تاہم بدھ کو سلیمان فرنجیہ نے صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد آرمی چیف جوزیف عون کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔ لبنان کے آئین کے مطابق بطور آرمی چیف جوزف عون صدارتی عہدے کے لیے اہل نہیں ہیں، تاہم یہ پابندی ماضی میں بھی ہٹائی گئی ہے۔
لبنان کو مشرقِ وسطیٰ میں کئی حوالوں سے خصوصیت حاصل ہے۔ لبنان اقوام متحدہ کا میثاق لکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لبنان کو عرب لیگ کانام عرب ممالک کی علاقائی تنظیم عرب لیگ کے بانی ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ لبنان نے 1943ءمیں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ اس وقت لبنان کے عیسائیوں اور مسلمانوں نے کسی خانہ جنگی کے بجائے پُرامن مستقبل کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا، جس کے پیش نظر انہوں نے ایک نیشنل چارٹر پر اتفاق کرلیا۔ یہ ملکی عہدوں کی مساوی تقسیم کا ایک غیرمکتوب معاہدہ ہے جس کے مطابق ملک کے صدر کا تعلق عیسائی مارونی فرقے سے ہوگا۔ صدر کی مدت چھ سال کے لیے ہے جو ناقابلِ تجدید ہے۔ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کرتا ہے اور صدر پھر وزیراعظم کا انتخاب کرتا ہے۔
صدر ملکی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف بھی ہوتے ہیں۔ ملکی وزیراعظم سنی مسلمان ہوگا، جبکہ پارلیمانی اسپیکر کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے ہوتاہے۔ لبنان ایک جمہوری پارلیمانی نظام کا حامل ملک ہے۔ لبنان کا فوجی سربراہ بھی مارونی چرچ سے ہوتا ہے۔ وزیرداخلہ اور داخلہ سیکورٹی ڈائریکٹر کے عہدوں پر سنی ہوتاہے جبکہ ملٹری انٹیلی جنس چیف شیعہ ہوتا ہے۔ لبنان کی سیاسی تاریخ میں اس شرط کا ہمیشہ سے خیال رکھا گیا ہے۔ لبنانی صدر کا انتخاب عیسائی مارونی چرچ سے ہی ہوتاہے۔
لبنان مشرقِ وسطیٰ کا منفرد عرب ملک ہے جس کے آئین میں مسیحی برادری کو اوّلین ترجیح اور اہمیت دی گئی ہے۔ ملک کی صدارت سے لے کر بیشتر مرکزی عہدوں پر عیسائی برادری کو ترجیح دی جاتی ہے۔لبنان چھ صوبوں میں منقسم ہے۔ ملک میں اٹھارہ مذہبی فرقے ہیں، ملک کی آبادی ساڑھے چھ ملین ہے جن میں سے54 فیصد سنی ،شیعہ اور اسماعیلی ہیں جبکہ 40فیصد عیسائی ہیں جو دس سے زائد فرقوں میں تقسیم ہیں۔ملک کی 6 فیصد آبادی دروز کی ہے۔ لبنان میں صدر کا عہدہ خالی ہونے کے باعث ملک کو شدید بحران کا سامنا رہا ہے۔ ایک جانب ملک کے اندر سیاسی اور اقتصادی بحران تھے، تو دوسری جانب اسرائیلی فورسز لبنان میں موجود۔ لبنان سات اکتوبر 2023ءسے حالت جنگ میں ہے۔
شام میں 8 دسمبر کو بشارالاسد کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے بعد لبنان کی اہمیت مزید اہمیت اختیار کرگئی ہے۔