غزہ کی تباہی کے بعد صہیونی ریاست اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو متعدد بار برملا اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے اور دنیا ایک نیا مشرق وسطیٰ دیکھے گی۔
خطے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا اشارہ گریٹر اسرائیل کے خواب کی طرف ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنا صہیونیوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ موجودہ حالات کو نیتن یاہو اور کی شدت پسند جنونی کابینہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے نہایت موزوں سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے ہر بار مذاکرات کو جان بوجھ کر ناکام بنایا جاتا ہے اور وہ کسی صورت بھی امن قائم کرنا نہیں چاہتے۔
مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست پہلے ہی شدید کشیدگی کا شکار ہے۔ غزہ کی تباہی کے بعد شام میں بدلتے حالات نے خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ اب ترکیہ اور اسرائیل ایک دوسرے کے مدِمقابل نظر آ رہے ہیں۔ لیکن اسی دوران، مصر بھی، جو انور السادات کے دور سے اسرائیل کا حلیف رہا ہے، اب اسرائیل کو چبھ رہا ہے۔ اسرائیلی چینل 14 کے مطابق مصر پر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام ہے، کیونکہ وہ جزیرہ نما سینا میں نئے فوجی اڈے تعمیر کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ماضی میں اسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں فلاڈیلفیا کوریڈور پر قبضہ کیا تھا، بلکہ اب بھی وہ عملاً اسرائیل کے ہی کنٹرول میں ہے، لیکن ایسی خلاف ورزیوں پر ہمیشہ میڈیا خاموش رہتا ہے۔ دوسری جانب ترکیہ کے ساتھ بھی تعلقات میں تناو¿ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی طاقتور ناجل کمیٹی، جو اسٹرٹیجک پالیسی بنانے کے لیے قائم کی گئی ہے، نے خبردار کیا ہے کہ ترکیہ کی سلطنت عثمانیہ کے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کی خواہش اسرائیل کے ساتھ براہِ راست تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل پہلا محاذ کس کے خلاف کھولے گا؟ مصر کے خلاف یا ترکیہ کے خلاف؟ لیکن خطے میں ہنگامہ خیز حالات کے آثار واضح ہیں۔
اسرائیل اپنے توسیعی عزائم کے سامنے دوست دشمن کی تمیز نہیں کرتا ہے۔ اگر تاریخ کو دیکھیں تو اسرائیل ہمیشہ پہلے کسی نرم ہدف کو نشانہ بناتا ہے اور طاقتور مخالف کو بتدریج کمزور کرتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایک حکومتی کمیٹی نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ ترکیہ کے ساتھ ممکنہ جنگ کے لیے تیاری کی جائے، کیونکہ تل ابیب کو دمشق میں نئی حکومت کے ساتھ انقرہ کے ممکنہ اتحاد پر بڑھتے ہوئے خدشات لاحق ہیں، خاص طور پر بشار الاسد کے نظام کے خاتمے کے بعد۔ منگل کے روز یروشلم پوسٹ اخبار نے بتایا کہ :
’سیکورٹی بجٹ اور طاقت کی تعمیر کے جائزے‘ کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی جو اپنے سربراہ یعقوب ناجل کے نام پر ’ناجل کمیٹی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ترکیہ اور شام کے اتحاد سے اسرائیل کی سلامتی کو ایک نیا اور بڑا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ کمیٹی کے مطابق یہ خطرہ ایرانی خطرے سے بھی زیادہ سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔ کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل کو ترکیہ کے ساتھ براہ راست تصادم کے لیے تیار ہونا چاہیے، خاص طور پر ترکی کی ان ’عثمانی اثر و رسوخ کی بحالی کی خواہشات‘ کے تناظر میں جنہیں کمیٹی نے ممکنہ کشیدگی کا سبب قرار دیا ہے۔ یہ کمیٹی 2023ءمیں غزہ پر جنگ کے آغاز سے پہلے تشکیل دی گئی تھی، تاکہ اسرائیلی وزارتِ دفاع کو ان ممکنہ تنازعات کے بارے میں سفارشات دی جاسکیں، جن کا اسرائیل آئندہ برسوں میں سامنا کرسکتا ہے۔ اوّل اسرائیل نیوز کے مطابق کمیٹی کی سربراہی یعقوب ناجل کررہا ہے جو قومی سلامتی کونسل کا سابق سربراہ ہے۔
ناجل کمیٹی کی سفارشات: یروشلم پوسٹ نے کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی نے اسرائیل کی دفاعی بجٹ میں اضافے کی تجویز دی ہے جو آئندہ پانچ برسوں میں سالانہ 15 ارب شیکل (4.1 ارب ڈالر) تک بڑھانا پڑے گا تاکہ اسرائیلی افواج کو ترکیہ کے ساتھ ممکنہ چیلنجز اور دیگر علاقائی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ مزید سفارشات درجہ ذیل ہیں:
٭…. جدید ہتھیار: اضافی ’ایف15‘ جنگی طیارے، ایندھن بھرنے والے طیارے، ڈرونز اور سیٹلائٹس حاصل کرنا تاکہ اسرائیل کی طویل فاصلے تک حملے کرنے کی صلاحیت کو مضبوط بنایا جاسکے۔
٭….فضائی دفاعی نظام: کثیر سطحی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا، جس میں آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ، ایروسسٹم، اور حال ہی میں فعال ہونے والے لیزر دفاعی نظام شامل ہیں۔
٭…. سرحدی تحفظ: وادی¿ اُردن کے ساتھ ایک محفوظ سرحدی رکاوٹ کی تعمیر جو اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرے گی، اگرچہ اس کے باعث اُردن کے ساتھ سفارتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
٭…. اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیردفاع یسرائیل کاٹز اور وزیرخزانہ بتسلئیل سموٹریچ نے ناجل کمیٹی کی سفارشات موصول کی ہیں۔
بیان کے مطابق نیتن یاہو نے کہا: ”ہم مشرقِ وسطیٰ میں بنیادی حالات کی تبدیلی کے بیچ میں ہیں۔ ہم کئی سالوں سے جانتے ہیں کہ ہمارے لیے بڑے خطرات ہیں، چاہے وہ براہ راست ہوں یا پراکسیز کے ذریعے۔“انہوں نے مزید کہا: یقینا ہم نے اس محور کو سختی سے نشانہ بنانے کا خیال رکھا۔ لیکن ہم نے یہ حقیقت محسوس کی ہے کہ اب اضافی قوتیں میدان میں داخل ہو چکی ہیں (مراد شامی انقلابی) اور ہمیں ہمیشہ اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چند ہفتے قبل، جب شامی اپوزیشن کی افواج نے بشارالاسد کی حکومت کو ہٹا دیا تھا، ترک صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا تھا کہ شام میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں ترکی کی جنوبی سرحدوں پر اس کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ پیدا کرسکتی ہیں۔
