حیدرآباد یونیورسٹی اپنے قیام کے سوا سال بعد بھی فعال نہ ہوسکی

وفاقی حکومت کے زیر اہتمام سندھ میں ایک ایسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کا انکشاف ہوا ہے جو بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربوں کے سبب سوا سال سے غیر فعال ہے۔

حیدرآباد انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ سائنسز وفاقی چارٹر کے بعد قائم ہونے والا وہ ادارہ ہے جس میں سوا سال تک بورڈ آف گورنرز ہی تشکیل نہیں دیا جاسکا جس کی وجہ سے اس ادارے میں مستقل بنیادوں پر افسران اور اساتذہ کی تقرریاں ہوسکیں نہ ہی اب تک تعلیمی سیشن شروع ہوسکا جبکہ کلیدی اسامیوں پر تقرریاں نہ ہونے سے یونیورسٹی کی زمین پر عمارت کی تعمیر سے متعلق ابتدائی امور تک طے نہیں ہوسکے ہیں۔

ادارے میں کوئی مستقل رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر آف ایکزامینیشن اور پروجیکٹ ڈائریکٹر تک موجود نہیں، اس بات کا انکشاف کچھ روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں سرکاری وفاقی و صوبائی جامعات کی صورتحال پر عدالت کی جانب سے ایک تفصیلی سماعت کے موقع پر ہوا ہے۔

“بی او جی” کی تشکیل کے لیے پینل کی فائل ” اعلی تعلیمی کمیشن، وفاقی وزارت تعلیم ، وزیر اعظم ہائوس اور ایوان صدر ” میں گھومتی رہی اور ازاں بعد اس فائل کو ایوان صدر میں ہی محفوظ کرلیا گیا، اس دوران ریکٹر و دیگر ملازمین صرف تنخواہیں لیتے رہے لیکن حیدرآباد کے طلبہ یہاں سے اپنا تعلیمی سفر شروع نہ کرسکے۔