Court Order

عدالتوں میں زیرالتوا کیسز کی وجہ ججز نہیں وکیل ہیں، جسٹس (ر) گلزار احمد

کراچی: سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد نے کہا ہے کہ عدالتوں میں زیرالتوا کیسز کی وجہ ججز نہیں بلکہ وکیل ہیں، قوانین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے، عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں کراچی کے نجی ہوٹل میں پاکستان کونسل آن فارن ریلیشنز کے تحت سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ر گلزار احمد، انور منصور خان و دیگر شریک تھے۔

جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد نے کہا کہ عدالتیں مستقل کیسز کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہیں، کیسز میں تاخیر ہونے سے سوسائٹی میں تفریق پیدا ہوتی ہے، قانون اور انصاف کمیشن نے کیسزجلدی سننے اور قوانین میں ترامیم پر بہت کام کیا۔ کیسز جمع ہونے کی وجہ ججز نہیں، ججز اپنا کام پورا کررہے ہیں۔ وکیل اپنے دلائل مکمل کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں کرتے۔

جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد نے کہا کہ قوانین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت پارلیمنٹ اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کیسز کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے لیئے اقدامات کیے۔ جعلی کیس فائل کرنے پر جرمانہ ہونا چاہیے۔ ملک کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے، حکومت کا کام ہےعوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔

سابق اٹارنی جنرل و معروف قانون دان انور منصور خان نے خطاب کرتے ہوئے کا کہ کیس منیجمنٹ کا نظام انصاف میں اہم کردار ہے، سول کیسز کے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پرانے قوانین کو جدید دور کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ سول کیسز کے لئے متبادل نظام انصاف ہونا چاہیے، ثالثی کے ذریعے سول نوعیت کے کیسز جلدی حل ہوسکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ متبادل نظام سے سول عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم ہوگا، مخالفین کو پھنسانے کے لئے دائر کئے گئے کیسز پر بھاری جرمانے ہونے چاہیے۔ ایک دن میں ایک جج کے سامنے 60 کیسز ہوتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں تربیت کا نظام ہونا چاہیئے۔ ججز کی تعیناتی کو میرٹ پر ہونی چاہیئے۔ ججز کی تعیناتی کے ساتھ تربیت بھی ہونی چاہیے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پوچھتے ہیں معاہدے کے تنازعات سے متعلق کیسز کتنے وقت میں حل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ کار کو جلد سے جلد انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کو سیاست کے بجائے ضروری قانون سازی کرنی چاہیے۔ بھارت میں سول پروسیجر کوڈ کو تبدیل کیا گیا۔ بھارت میں سول نوعیت کے مقدمات تیزی سے حل ہوتے ہیں۔ عدالتی امور کو ڈیجیٹیلائزیشن کی جانب بتدریج لیجانا ہوگا۔

سابق صدر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر صلاح الدین نے سیمنار سے خطاب میں کہا کہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا 128 واں نمبر ہے۔ شکایت پر زیادہ وقت لگاتے ہیں۔ مسائل کے حل میں وقت کم لگاتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ججز دس سے بارہ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں جبکہ وکلا پر کیسز کی طوالت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ کسی بھی وکیل کے لئے مقدمات کا انبار لگانے کے بجائے جلد سے جلد فیصلے تک جانا بہتر ہوتا ہے، انصاف کے مظالم کے مسائل حل کرنے کے لئے ٹاسک فورس قائم کرنا چاہیے۔ کئی کئی ماہ تک فریقین کو نوٹس ہی نہیں ملتے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ انصاف کے نظام میں بہتری کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ کیس منیجمنٹ سسٹم کو بہتر کرکے وقت کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے۔ عدالتی سماعت کو کیمرے سے ریکارڈ کیا جانا چاہیے۔ برطانیہ میں سول کیسز کے فیصلوں کا اوسط دورانیہ پانچ سے 6 سال تھا۔ برطانیہ نے کیسز جلدی نمٹانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ہزار زیر التوا کیسز نمٹائے جاتے ہیں۔ اس رفتار سے زیر التوا کیسز ختم کرنے میں بیس سے 25 سال لگ سکتے ہیں۔ ایڈہاک بنیادوں پر اضافی بینچز کی تعیناتی سے التوا کے شکار مقدمات ختم کئے جاسکتے ہیں۔