دارفور: سوڈانی میڈیکل تنظیم نے کہا ہے کہ نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز دارفور میں اجتماعی قتلِ عام کے ثبوت مٹانے کے لیے لاشوں کو جلا رہی ہے۔
سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک نے کہا کہ آر ایس ایف کے اہلکار دارفور کے مغربی علاقے کے شہر الفاشر کی سڑکوں سے سیکڑوں لاشیں جمع کر رہے ہیں، جہاں 26 اکتوبر کو ان کی خونریز کارروائی کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا گیا تھا، ان کے جرائم کو جلانے یا چھپانے سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
بیان میں مزید کہا گیاکہ الفاشر میں جو کچھ ہوا وہ کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ ایک مکمل نسل کشی کا نیا باب ہے، جسے آر ایس ایف نے انجام دیا ہے، یہ کارروائیاں تمام بین الاقوامی اور مذہبی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو لاشوں کی بے حرمتی سے منع کرتے ہیں اور مردوں کو باعزت تدفین کا حق دیتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے مطابق الفاشر کی کل 2,60,000 کی آبادی میں سے 82,000 افراد شہر کے آر ایس ایف کے قبضے کے بعد فرار ہو چکے ہیں، وہاں بڑے پیمانے پر قتل، ریپ اور تشدد کے واقعات ہوئے ہیں، جبکہ کئی شہری اب بھی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سوڈانی دارالحکومت خرطوم سے الجزیرہ کی نامہ نگار ہِبا مورگن نے بتایا کہ بہت سے لوگ جو الفاشر سے شمالی علاقے الدبہ کی طرف بھاگے، وہ راستے میں ہی مر گئے، کئی ایک کو گولیاں لگی ہوئی تھیں جبکہ دیگر بھوک اور پیاس سے ہلاک ہوئے۔
مورگن کے مطابق فرار ہونے والے کئی افراد نے بتایا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی موت کے بارے میں صرف سوشل میڈیا پر گردش کرتی آر ایس ایف جنگجوؤں کی ویڈیوز سے معلوم ہوا، ان ویڈیوز میں انتہائی تشدد اور قتل کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
نسلی بنیادوں پر قتل و غارت
الفاشر میں رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے پیاروں کے حالات سے بے خبر ہیں، انہیں یقین ہے کہ اگر ان کے رشتہ دار ابھی تک الفاشر میں زندہ ہیں تو وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہیں گے یا تو بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے یا پھر آر ایس ایف ان کو نسل کی بنیاد پر نشانہ بنائے گی۔
آر ایس ایف اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ فورس دراصل اُن عرب غالب ملیشیاؤں سے نکلی ہے جنہیں جنجوید کہا جاتا تھا، وہی گروہ جن پر دو دہائیاں قبل دارفور میں نسل کشی کے الزامات لگے تھے، 2003 سے 2008 کے درمیان تقریباً 3 لاکھ افراد مارے گئے اور لگ بھگ 27 لاکھ لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے۔
ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (MSF) کے سیلوین پینیکوڈنے کہا کہ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنی جلد کے رنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، میرے لیے سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ شہریوں کو بھاگتے وقت شکار کی طرح مارا جا رہا تھا، صرف اس لیے کہ وہ سیاہ فام ہیں۔
الفاشر میں غالب نسل زغاوہ ہے، جو 2023 کے اواخر سے فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے، یہ گروہ ابتدا میں غیر جانبدار رہا تھا، مگر آر ایس ایف کی جانب سے مغربی دارفور کے دارالحکومت الجنینہ میں مسالیت قبیلے کے 15,000 تک افراد کے قتلِ عام کے بعد اس نے فوج کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
الفاشر کے ایک یونیورسٹی طالبعلم حسن عثمان نے کہا کہ گہرے رنگت والے رہائشی، خصوصاً زغاوہ قبیلے کے لوگ نسلی گالیوں، ذلت، جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنے، اگر آپ کی جلد کی رنگت ہلکی ہے تو شاید وہ آپ کو جانے دیں، یہ بالکل خالصتاً نسلی معاملہ ہے۔

