خیمہ بستی پراسرائیلی حملہ،2 بچوں سمیت7شہید،چھاپے،گرفتاریاں

غزہ/تل ابیب/قاہرہ/واشنگٹن/پیرس:غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری، خان یونس میں میزائل حملے سے خیمہ بستی میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت 7 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

مغربی کنارے میں قابض صہیونی فوج کا خاتون پر وحشیانہ تشدد، آباد کاروں کے حملے میں باپ بیٹی شدید زخمی ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداد 70 ہزار 125ہوگئی،1لاکھ 71ہزار 15 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ملبے تلے دبے فلسطینی شہدا کی میتوں کی تلاش بھی جاری ہے جبکہ فریقین نے ایک دوسرے پر معاہدہ توڑنے کا الزام عائد کر دیا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں جمعرات کی صبح اسرائیلی میزائل حملے کے باعث خیمہ بستی میں آگ بھڑک اٹھی حملے میں دو بچوں سمیت 7 فلسطینی شہید ہوگئے۔ مقامی افراد نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور مزید خیموں کو جلنے سے بچا لیا۔

الکویتی اسپتال کے طبی حکام کے مطابق اسپتال میں لائی گئی لاشوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ کچھ افراد کی حالت تشویشناک ہے۔اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ خان یونس میں کیا گیا حملہ حماس کے ایک جنگجو کو نشانہ بنانے کیلئے تھا۔

دریں اثناء اسرائیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں رفح بارڈر کو کھول دیا جائے گا جس سے غزہ کے رہائشیوں کو شہر سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس اعلان سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں بیمار اور زخمی لوگ علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

تاہم اسرائیل کے اس اعلان کے باوجود بھی پیچیدگی موجود ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ غزہ سے جانے والوں کے لیے اسرائیل اور مصر سے منظوری لینا ضروری ہو گا اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ منظوری کے لیے کیا معیار رکھا گیا ہے۔

غزہ پر جاری نسل کشی کے دوران قابض اسرائیل کی سفاکیت کے ایک نہایت حساس پہلو سے پردہ اٹھتے ہوئے مستند شواہد، میڈیا تحقیقات اور انسانی حقوق کی رپورٹس نے ان ہولناک جرائم کو بے نقاب کیا ہے جو روایتی جنگی قوانین اور انسانی اقدار کی ہر حد سے آگے نکل چکے ہیں۔

جہاں عالمی ادارے شہداء کی گنتی اور تباہ شدہ عمارتوں کی نگرانی میں مصروف رہے وہاں اس سے کہیں پیچیدہ سوال سامنے آیا کہ مفقودین کا انجام کیا ہوا اور ان شہریوں کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا جو امدادی مراکز اور نقل مکانی کے راستوں پر مارے گئے۔

امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این” کی تفصیلی تحقیقات اور اس کے بعد یورو میڈ ہیومن رائٹس آبزر ویٹری کی فراہم کردہ شہادتوں اور دستاویزات نے ان پراسرار تدفینی کارروائیوں اور نہتے فلسطینی شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کے خوفناک سلسلے کو واضح کیا ہے۔

اس سے یہ بھی سامنے آیا کہ قابض اسرائیلی فوج کس حد تک بین الاقوامی انسانی قوانین کو روند رہی ہے اور ان سیکڑوں افراد کا انجام کیا ہوا جو زمینی حملوں کے ابتدائی ہفتوں میں شمالی غزہ سے غائب ہوئے۔سی این این کی ایک جامع تحقیقی رپورٹ نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمال میں زیکیم کراسنگ کے قریب فلسطینیوں کی لاشوں کو بغیر کسی علامت کے انتہائی سطحی قبروں میں دفن کیا۔

اس گھنائونے عمل میں فوجی بلڈوزر کو استعمال کیا گیا اور جنگی اصولوں کی کوئی پابندی نہیں کی گئی۔تحقیق میں ایسی متعدد تصاویری ویڈیوز شامل تھیں جن کے مقامات کی جیو لوکیشن کے ذریعے تصدیق کی گئی۔ ان مناظر میں قابض فوج کے بلڈوزر کھلے میدان میں فلسطینیوں کی لاشوں کو گھسیٹتے اور دفن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سی این این نے سیٹلائٹ تصاویر بھی استعمال کیں جن میں زمین کی ساخت میں واضح تبدیلیاں اور مسلسل کھدائی و ردم ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔یہ انکشاف اس لیے بھی چونکا دینے والا ہے کہ ان میں سے کئی شہداء وہ تھے جنہیں امدادی قطاروں پر فائرنگ کے دوران نشانہ بنایا گیا۔

تحقیقات کے دوران مقامی رہائشیوں اور گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے بتایا کہ انہوں نے متعدد لاشوں کو کئی گھنٹوں بلکہ بعض اوقات کئی دنوں تک کھلے میدان میں پڑا دیکھا،اس کے بعد انہیں مشینی انداز میں دفن کر دیا گیا۔

سی این این نے ایک سابق اسرائیلی فوجی کی گواہی بھی شائع کی جس نے اعتراف کیا کہ اس کی یونٹ نے نو نہتے فلسطینیوں کو بغیر نشانی کے قبروں میں دفن کیا اور فوجیوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس کارروائی کی کوئی تصویر نہ بنائیں۔

تحقیق کے مطابق کئی لاشیںان فلسطینیوں کی تھیں جو امدادی مراکز کی جانب جاتے ہوئے اچانک غائب ہو گئے۔ایک نوجوان کا ذکر کیا گیا جو کھانے کی اشیاء لینے کے لیے نکلا مگر فائرنگ کے بعد لاپتا ہو گیا۔اس کے گھر والوں کو آج تک نہ اس کا جسد مل سکا نہ اسے دفنائے جانے کی جگہ کا علم ہو سکا۔

یورو میڈنے اپنی الگ رپورٹ میں انکشافات کی تصدیق کی۔ اس نے فائرنگ اور مشینی دفن کے ایسے ہی کئی واقعات دستاویزی شکل میں پیش کیے۔مارچ 2024ء کی ایک ویڈیو میں دو فلسطینی شہریوں کو شارع الرشید میں سفید جھنڈے اٹھائے قابض فوج کے قریب آتے دیکھا گیا۔

وہ چند لمحوں بعد ملبے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ ایک فوجی بلڈوزر ان کا پیچھا کرتا دکھائی دیا اور بعد میں لاشوں کو ریت میں دفن کردیا گیا۔آبزرویٹری کے مطابق یہ واقعات نہ صرف انسانیت کی منظم بے حرمتی ہیں بلکہ خوف اور جبری بے دخلی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی واضح مثال ہیں۔

آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ یہ اعمال مکمل جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور نسل کشی کے ارادے کے مزید ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

ادھرقابض اسرائیلی بحریہ نے جمعرات کے روز غزہ کی سمندری حدود میں فلسطینی ماہی گیروں پر اپنے مسلسل حملوں اور جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کے دوران چار ماہی گیروں کو گرفتار کر لیا۔

غزہ میں ماہی گیروں کی کمیٹی کے ذمہ دار زکریا بکر نے بتایا کہ قابض اسرائیلی جنگی کشتیاں غزہ کے ساحل پر اپنے روزمرہ روزگار میں مصروف ماہی گیروں کی کشتیوں پر چڑھ دوڑیں اور چار فلسطینی ماہی گیروں کو گرفتار کر کے لے گئیں۔

گرفتار کیے گئے ماہی گیر وں میں حمزہ عبدالوہاب کتوع، عبداللطیف زکی طروش، رشدی عبداللہ العطار اور عرفات مالک طروش شامل ہیں۔بکر کے مطابق ماہی گیر اپنے ساتھیوں کی ایک کشتی واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم قابض فوج نے دوسری کشتی واپس لانے کی اجازت نہیں دی۔

ادھرقابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ رات اور جمعرات کی صبح غرب اردن میں وسیع پیمانے پر چڑھائیاں کیں جن میں کئی فلسطینی شہروں اور دیہات پر دھاوا بولا گیا۔ اس دوران گھروں پر یلغار، شہریوں کی گرفتاری، سڑکوں کی بندش، گھروں کو فوجی بیرکوں میں بدلنے اور امدادی کارکنوں پر حملے جیسے جرائم بھی شامل تھے۔

مقبوضہ الخلیل گورنری میں قابض اسرائیلی فوج نے بیت امر اور سعیر کے دیہات پر شمالی علاقے کی طرف سے دھاوا بولا۔ اسی طرح مقبوضہ بیت لحم گورنری میں بھی بلڈوزروں اور فوجی گاڑیوں نے زعترہ (شرق) اور بیت فجار (جنوب) پر یلغار کی۔

قابض اسرائیلی فوج نے رام اللہ کے شمال میں واقع بلدہ المغر پر بھی چڑھائی کی اور اس دوران سابق اسیر عیاش ابو علیا کے گھر کا محاصرہ کر کے اسے زبردستی چھاپے کا نشانہ بنایا۔اسی تناظر میں قابض اسرائیلی فوج نے رام اللہ کے شمالی علاقے میں واقع الجلزون کیمپ پر بھی دھاوا بولا اور گھر پر حملہ کر کے سابق اسیر باجس نخل کو گرفتار کر لیا۔

چھاپوں کی یہ لہر قلقیلیہ شہر تک جا پہنچی جہاں کفر سابا محلہ میں قابض فوج نے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا،سڑکیں بند کر دیں اور کئی گرفتار شدہ فلسطینیوں کو ایک گھر میں منتقل کر دیا جسے فوج نے عارضی فوجی مرکز میں تبدیل کر کے وہاں تفتیش کا عمل شروع کیا۔

محلے میں متعدد گھروں کی چھتوں پر فوجی تعینات کر دیے گئے۔ریڈ کراس نے اطلاع دی کہ قابض اسرائیلی فوج نے قلقیلیہ میں ایک رضاکار ایمبولینس اہلکار پر ڈیوٹی کے دوران حملہ کیا جبکہ کفر سابا محلے میں دیگر طبی کارکنوں پر حملوں اور انہیں مریضوں تک رسائی سے روکنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

شمالی غرب اردن میں قابض اسرائیلی فوج نے طولکرم کے شمال میں واقع بلد علار پر دھاوا بولا اور سابق اسیر محمد حسنی جعار کے گھر میں توڑ پھوڑ کی۔نابلس شہر میں قابض اسرائیلی فوج نے حاجز الطور کی جانب یلغار کی جبکہ جنوب کی طرف واقع مادما گاؤں میں گھروں پر حملے کیے۔

اسی طرح قباطیہ جنوب جنین میں بھی قابض فوج نے اپنی جارحیت جاری رکھی جو گرفتاریوں، فیلڈ انویسٹی گیشن اور بھاری فوجی نفری کی تعیناتی کے ساتھ جاری رہی۔قابض اسرائیلی فوج نے قلقیلیہ شہر کے اطراف مزید فوجی کمک بھی بھیج دی ہے جبکہ شہر کے مضافات میں جھڑپوں اور مسلسل یلغار کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

مقبوضہ بیت لحم گورنری میں بھی قابض اسرائیلی اداروں کی مسماری کی گاڑیاں مشرقی علاقے کے گاؤں دار صلاح کی سمت روانہ ہوئیں تاکہ فلسطینی املاک کو مزید تباہ کیا جا سکے۔دوسری جانب امریکی صدر کے غزہ جنگ بندی معاہدے پر فریقین کے اتفاق کے باوجود عمل درآمد کی رفتار نہایت سست روی کا شکار ہے لیکن ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان نے سب کی توجہ حاصل کرلی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہایت پْرامید انداز میں کہا ہے کہ ان کے غزہ امن منصوبے کا دوسرا مرحلہ بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔وائٹ ہاؤس میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ غزہ امن منصوبے کا دوسرا مرحلہ کب شروع ہوگا جس پر صدر ٹرمپ نے براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ سب اچھا چل رہا ہے۔

انھوں نے غزہ میں اسرائیلی فوجی اہلکاروں پر ہونے والے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بم پھٹا ہے اور کچھ لوگ شدید زخمی ہوئے یا شاید ہلاک بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود معاملات بہت اچھے جا رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے ۔

ایک مصری ذریعے نے بتایا ہے کہ مصر اپنے ہاں موجود غزہ کے رہائشیوں کو دوبارہ غزہ واپس جانے کی اجازت دے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مصر صرف غزہ سے آنے والے زخمیوں، مریضوں اور انسانی بنیادوں پر حالتوں کو قبول کرے گا۔

مصری ذریعے کے مطابق رفح کی سرحدی گزرگاہ کو اصول و ضوابط کے مطابق اور دونوں سمتوں میں کھولا جائے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ سے مصر کی طرف کسی بھی قسم کی جبری نقل مکانی نہیں ہو گی۔ان کے مطابق مصر غزہ کے اندر رہائش کے لیے عارضی مکانات اور خیمے بھیجنے کی درخواست کرے گا۔

ادھردو صحافی یونینز نے فلسطینی علاقوں میں فرانسیسی صحافیوں کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے کے الزام میں اسرائیل کے خلاف فرانس میں قانونی شکایت درج کروائی ہے۔

یہ بات یونینزنے بتائی۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے)اور فرانسیسی صحافیوں کی یونین نے گذشتہ ہفتے پیرس کے انسدادِ دہشت گردی پراسیکیوٹر کے دفتر میں شکایت درج کروائی جس میں اسرائیل پر غزہ اور اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں”اطلاع دینے کی آزادی میں حائل ہونے” کا الزام لگایا گیا۔

دوسری جانب قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اپنے ملٹری سیکریٹری جنرل رومان غوفمان کو موساد کا نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیاہے جس کے بعد سیکورٹی حلقوں میں سخت بحث اور تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

نیتن یاھو نے جمعرات کے روز کابینہ کے اجلاس کے آغاز میں کہاکہ میں نے اپنے ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ جنرل رومان غوفمان کو موساد کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ انتخاب موساد کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کے جامع جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔ن

یتن یاھو نے غوفمان کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک ایسا افسر ہے جو جدت کے جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے، قیادت کی ثابت شدہ خصوصیات رکھتا ہے، تخلیقی صلاحیت، ہوشیاری اور عالمی معیار کی آپریشنل مہارت رکھتا ہے۔ اس کی عسکری مہارت اور قائدانہ تجربہ اسے اس منصب کے لیے موزوں ترین امیدوار بناتا ہے۔ن

یتن یاھو کے دفتر کے بیان کے مطابق غوفمان کی تعیناتی کا معاملہ آج سینئر اہلکاروں کی تعیناتی کے مشاورتی کمیشن کو پیش کیا جائے گا۔ موجودہ موساد سربراہ ڈیوڈ برنیا کی مدت جولائی کے مہینے میں ختم ہو جائے گی بعد غوفمان کا عہدہ سنبھالنا متوقع ہے۔

حماس نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل کو اس کی مسلسل خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے مؤثر عالمی دباؤ ڈالا جائے اور اسے جنگ بندی کے تمام معاہداتی تقاضے پورے کرنے پر مجبور کیا جائے۔

ان شرائط میں سب سے اہم رفح کراسنگ کو دونوں جانب سے فوری طور پر کھولنا ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ غزہ میں جنگ بندی نافذ ہونے کے باوجود قابض صہیونی فوج کے حملے بدستور جاری ہیں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

حماس کے ترجمان حازم قاسم نے جمعرات کے روز بیان دیتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل ہمارے عوام کے خلاف اپنی سفاکیت روکنے کے بجائے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کر کے مسلسل قتل عام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قابض فوج شہری آبادی، بے گھر خاندانوں اور امدادی مراکز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ خیموں کو آگ لگانا، محروم عوام کی بقیہ بچی چند رہائشی عمارتوں کو دھماکوں سے اڑانا اور رفح کراسنگ کو مسلسل بند رکھنا اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے نہ صرف شہریوں کی نقل و حرکت رکی ہوئی ہے بلکہ انسانیت سوز محاصرہ مزید شدید ہو رہا ہے۔