نیویارک/غزہ/ریاض/تل ابیب/واشنگٹن:اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے اطفال یونیسیف کے خصوصی نمائندے نے غزہ کی صورتحال کو انتہائی تباہ کن قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ شدید سردی، پناہ گاہوں کی کمی اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی بچوں اور خاندانوں کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔
اس کے ساتھ ایک اقوامِ متحدہ کے مقرر نے غزہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پیاس اور پینے کے قابل پانی کی تباہ کن قلت پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔یونیسیف کے خصوصی نمائندے جوناتھن فیچ نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ غزہ میں صورتحال تباہ کن ہے، سردی نے پہلے سے بے گھر اور کمزور خاندانوں کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیز فائر کے اعلان کے باوجود غزہ کے بچوں کی روزمرہ زندگی شدید ترین مشکلات میں جکڑی ہوئی ہے اور ان کی فوری زندگی بچانے والی امداد ناگزیر ہے تاکہ ان کی تکلیف میں کمی لائی جا سکے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے مقرر نے جو پینے کے پانی اور نکاسی آب کے حق سے متعلق امور دیکھتے ہیں خبردار کیا ہے کہ غزہ ایک نئی اور شدید انسانی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان کے مطابق قابض اسرائیل کی فوج نے حملوں کے دوران غزہ کی تقریباً 90 فیصد پانی کی تنصیبات تباہ کر دی ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پانی کی فراہمی روکنا یہاں کے شہریوں کے خلاف عملی طور پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ پانی کے کنوؤں اور ڈی سیلی نیشن پلانٹس کے لیے درکار ایندھن کی رسائی مسلسل روکی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد صاف پانی سے محروم ہوگئے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آلودہ پانی کا استعمال ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں کو براہ راست خطرے میں ڈال رہا ہے اور ہیضے سمیت مہلک بیماریوں کے پھوٹنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مقرر کے مطابق سیز فائر کے اعلان کے باوجود غزہ میں تباہی اور انسانی مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے اور پانی کی قلت نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
ادھرقابض اسرائیلی فوج نے منگل کی صبح مغربی کنارے میں اپنے سفاک حملے جاری رکھتے ہوئے زخمی اسیر عبد الکریم صنوبر کے اہل خانہ کا گھر زواتا بلدیہ میں نابلس کے مغرب میں بم دھماکے سے تباہ کر دیا اور دوسری جانب اس کے بلڈوزروں نے شمالی طوباس کی عقابا بلدیہ میں اسیر ایمن غنام کا گھر مسمار کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ قابض فوج نے صنوبر خاندان کے گھر کو دو مسلسل مراحل میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اس دوران شہریوں کو قریب آنے سے روکنے کے لیے دھماکے دار صوتی بم اور زہریلی گیس پھینکی گئی۔
دھماکے کے بعد بھی قابض فوج بڑی تعداد میں زواتا میں موجود رہی۔بلند حوصلے کے ساتھ اسیر عبد الکریم صنوبر کے والد اور پھپھو نے زواتا میں گھر کو دھماکے سے اڑانے سے قبل قابض اسرائیل کی جارحیت کے سامنے اپنے صبر و ثبات کا اظہار کیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ قابض فوج نے ”دوار زواتا” اور اس کے اردگرد کے داخلی راستے مکمل طور پر بند کر دیے ساتھ ہی قرآن کریم اکیڈمی کے قریب کا علاقہ بھی گھیرے میں لے لیا۔ اس کے بعد انہوں نے صنوبر خاندان کے گھر کے آس پاس رہنے والے متعدد فلسطینی خاندانوں کو جبراً گھروں سے نکال کر علاقے کو خالی کرایا تاکہ دھماکے میں انہیں نقصان نہ پہنچے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فجر کے وقت کی اس جبری بے دخلی میں تیرہ عمارتیں شامل تھیں جو اسیر صنوبر کے گھر کے ارد گرد واقع تھیں۔ اس دوران بڑی تعداد میں قابض فوج کے سپاہی اور بھاری عسکری گاڑیاں علاقے میں پھیلا دی گئیں۔
پانچ ستمبر2025ء کو قابض حکام نے زواتا گاؤں میں عامر حسن صنوبر کے گھر کو باضابطہ نوٹس جاری کیا تھا جس میں گھر کو مسمار کرنے اور ضبط کرنے کا اعلان کیا گیا۔ قابض اسرائیل نے اسیر عبد الکریم صنوبر پر الزام لگایا کہ وہ بیس فروری کو ‘بات یام’ اور ‘حولون’ میں تین بسوں پر حملوں میں ملوث تھے۔
قابض اسرائیلی فوج نے اسیر صنوبر کو 23جولائی کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ بائیس جولائی کو ایک داخلی دھماکے میں زخمی ہوگیا تھا۔ اہلِ علاقہ کے مطابق نوٹس میں گھر کو مسمار کرنے اور اسے نام نہاد ‘سکیورٹی استعمال’ کے لیے قبضے میں لینے کا فیصلہ شامل تھا۔
دوسری جانب شہر میں نجی اسکولوں اور نرسریوں کی نقابت نے اعلان کیا کہ قابض فوج کے حملے اور گھیراؤ کے باعث متاثرہ علاقوں کے قریبی اداروں میں تدریسی عمل معطل رہے گا۔قابض اسرائیل کی فوج عقابا بلدیہ میں بھی گھس آئی جہاں اس کے ساتھ ایک بھاری بلڈوزر (D10) موجود تھا جس نے زخمی اسیر ایمن غنام کے اہل خانہ کا گھر مکمل طور پر مسمار کر دیا۔
عقابا کے میئر عبد الرزاق ابو عرہ کے مطابق یہ گھر دو منزلوں پر مشتمل تھا جس کی مجموعی وسعت ایک سو اسی مربع میٹر تھی۔یہ کارروائی ان اضافی فوجی کمک کے بعد کی گئی جو قابض اسرائیل نے طوباس اور عقابا میں اپنے جاری مسلسل حملوں میں تیزی لانے کے لیے تعینات کی ہے۔
یہ یلغار مسلسل دوسرے دن بھی جاری ہے۔دوسری جانب منگل کی صبح قابض اسرائیلی فوج کی وحشیانہ یلغار کے دوران غرب اردن کے متعدد علاقوں میں گھر گھر چھاپوں، لوٹ مار اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ فائرنگ سے ایک نوجوان اور ایک فلسطینی خاتون زخمی ہو گئے۔
ام صفا گائوں شمالی رام اللہ میں ایک فلسطینی نوجوان قابض اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنا۔ فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے اسے زخمی تک پہنچنے سے روک دیا۔بیان کے مطابق پیرا میڈیکل ٹیمیں ہلال احمر ے کیساتھ رابطے میں ہیں تاکہ زخمی تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
قابض اسرائیلی فوج پیدل ہی ام صفا کی گلیوں میں داخل ہوئی، نوجوانوں کو حراست میں لے کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں کی طرف آنسو گیس کے گولے اور صوتی بم برسائے۔ام صفا بلدیہ سربراہ نے بتایا کہ غزہ پر مسلط جنگ کے آغاز سے ہی گاؤں سخت محاصرے کا شکار ہے۔
اس کے دونوں مرکزی داخلی راستے بند ہیں جس سے عوام کی آمد و رفت متاثر ہوئی اور زرعی اراضی و املاک کو شدید نقصان پہنچا۔انہوں نے بتایا کہ گاؤں کو بارہا بلڈوزنگ، گھروں کی مسماری کے نوٹس، زمینوں پر قبضے اور آبادکاروں کے حملوں کا سامنا ہے جن میں گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی شامل ہیں اور یہ سب قابض فوج کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔
رام اللہ میں بھی قابض اسرائیلی فوج نے شمالی داخلی راستے مکمل طور پر بند کر دیے۔ مقامی ذرائع کے مطابق عطارہ اور عین سینیا چیک پوسٹیں، روابی چوک، نبی صالح گیٹ اور نابلس و رام اللہ کو ملانے والے عیون الحرامیہ جنکشن کو بھی بند کر دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ قابض فوج نے رام اللہ، اس کے گردونواح اور شمال، شمال مغرب اور مشرق کی جانب واقع دیہات میں فوجی گشت اور سیکورٹی پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں۔نسلی دیوار اور یہودی آباد کاری کے سرکاری ادارے کے مطابق اکتوبر میں قابض اسرائیلی فوج و آبادکاروں نے مستقل اور عارضی چیک پوسٹوں سمیت 916 رکاوٹیں قائم کیں۔
ان میں سے 243 لوہے کے گیٹ ہیں جو سات اکتوبر2023ء کے بعد نصب کیے گئے۔بیت لحم میں 35 سالہ فلسطینی خاتون کو مزموریا چیک پوسٹ کے قریب قابض فوج نے گولی مار کر زخمی کردیا۔ فلسطینی ہلال احمر کے مطابق خاتون کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
نابلس میں قابض اسرائیلی فوج نے کئی سمتوں سے پیش قدمی کی۔الخلیل میں قابض اسرائیلی فوج نے المحتسب ہسپتال، الاحمر اسپیشلسٹ ہسپتال اور الملکی ہسپتال کے اطراف دھاوا بولا۔ یہ یلغار بیت امر، حلحول اور دورا کے کنار علاقے تک پھیل گئی۔
یہ ساری کارروائی جنین کے جنوب مشرق میں میثلون، طولکرم کے شمال میں قفین اور رام اللہ کے شمال میں بیرزیت تک بڑھ گئی۔ طولکرم کی مشرقی بستی میں چھاپے کے دوران قابض فوج نے دو فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔
طوباس میں مسلسل دوسرے روز فوجی کمک اور گولہ باری جاری رہی جس میں شدید فائرنگ اور صوتی دھماکوں کا استعمال کیا گیا۔سلفیت میں قابض فوج نے الزاویہ قصبے سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائیوں قسام سامی رداد اور سمیر سامی رداد (دونوں 24 برس) کو گھر پر دھاوا بول کر گرفتار کر لیا۔
علاوہ ازیںمنگل کی صبح جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس کے وسطی علاقے میں ایک نشانہ بنائے جانے والے حملے میں فلسطینی صحافی اور فوٹوگرافر محمود عصام وادی شہید ہو گئے۔میڈیا ذرائع نے بتایا کہ محمود عصام وادی کو ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کے سول ڈیفنس نے بتایا کہ ان کی ٹیموں نے السنافور چوک کے علاقے سے دو خواتین اور دو بچوں سمیت پانچ زخمیوں کو بحفاظت نکالا جبکہ قابض اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ بیت المقدس کے شمال مشرق میں واقع بلہ مخماس میں ایک نئی غیرقانونی بستی قائم کرنا شروع کردی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم البیدر نے بتایا کہ گذشتہ روز قابض اسرائیلی آبادکاروں کے گروہ نے مخماس کے مشرق میں فلسطینی شہریوں کی زمینوں پر یہ نئی بستی تعمیر کرنا شروع کی۔تنظیم نے واضح کیا کہ آبادکاروں نے اس مقام پر متعدد عارضی ڈھانچے کھڑے کیے ہیں جو اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ اس خطے میں قبضے کے توسیعی منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
یہ توسیع نہ صرف زرعی زمینوں کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ مقامی فلسطینی آبادی کے وجود اور بقا پر بھی براہ راست حملہ ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کی کارروائیوں کا تسلسل علاقے میں کشیدگی بڑھاتا ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی شہریوں کا امن اور استحکام متاثر ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی ہی زمینوں تک پہنچنے میں مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
تنظیم البیدر نے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غیرقانونی بستیاتی پھیلاؤ کا فوری نوٹس لیں اور فلسطینی زمینوں اور مقامی باشندوں کو بڑھتے ہوئے خطرات سے تحفظ فراہم کریں۔
فلسطینی سرکاری ادارہ برائے مزاحمت دیوار و استطان کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر مسلط نسل کشی کی جنگ کے دوران سے لے کر 5 اکتوبر2025 تک آبادکاروں نے 114 نئی بستیاتی چوکیوں کی تعمیر کی۔
دوسری جانب سعودی عرب نے فلسطینی خزانے کی مالی مددکیلئے 90 ملین ڈالر کی نئی گرانٹ فراہم کر دی ہے۔غیرملکی میڈیارپورٹ کے مطابق یہ رقم عمان میں سعودی سفارت خانے میں وزیر منصوبہ بندی و بین الاقوامی تعاون اسطفان سلامہ نے سعودی سفیر برائے اردن و ریاستِ فلسطین کے غیر مقیم کمشنر شہزادہ منصور بن خالد بن فرحان آل سعود سے ملاقات کے دوران وصول کی۔
سعودی عرب کی یہ مالی امداد 2025ء میں فلسطینی اتھارٹی کی مسلسل حمایت کا حصہ ہے۔فلسطینی نائب صدر حسین الشیخ نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی گرانٹ مشکل معاشی حالات میں فلسطینی مالی استحکام کو مضبوط کرے گی۔
انہوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے سعودی عرب کے مستقل اور مضبوط موقف کو بھی سراہا۔اردن میں سعودی سفیر شہزادہ منصور بن خالد نے کہا کہ سعودی عرب فلسطینی عوام کے جائز حقوق اور آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کے اپنے تاریخی موقف پر قائم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مالی معاونت فلسطینی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مدد دے گی اور صحت و تعلیم سمیت اہم شعبوں میں عوام کے مسائل کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی جبکہ اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تصدیق کی ہے کہ رفح کے محلے جنینہ میں شہید ہونے والے حماس تنظیم کے تین جنگجو دراصل بریگیڈ کمانڈر، نائب کمانڈر اور سرنگ یونٹ کا سربراہ تھے۔
جائے وقوعہ سے چار لاشیں برآمد کی گئیں جنہیں شناخت کے لیے اسرائیل منتقل کیا گیا اور تین اعلیٰ کمانڈروں کی شناخت کی حتمی تصدیق ہو گئی۔ ان میں ایک حماس کے اہم رہنما کا بیٹا رازی حامد بھی شامل تھا جو جنینہ کے مشرقی حصے میں سرنگ میں محصور جنگجوئوں میں شمار ہوتا تھا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی اعلیٰ حکام مذاکرات کے دوران ان تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے۔ دوسری جانب اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے حملے کے بعد تین اطالویوں اور ایک کینیڈین کا جیریکو کے ہسپتال میں علاج کیا گیا۔
روم میں وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تین اطالوی بین الاقوامی رضاکاروں پر گذشتہ رات اسرائیلی آباد کاروں نے حملہ کیا اور مزید بتایا وہ اس واقعے سے ہنوز صدمے میں ہیں۔جیریکو کے سرکاری ہسپتال کے ڈائریکٹر ریاض عید نے بتایا چار غیر ملکی ہسپتال پہنچے جنہیں ان کی اطلاع کے مطابق آبادکاروں نے زدوکوب کیا تھا۔
انہوں نے کہا ان میں سے بعض کے چہرے اور سینے پر زخم تھے اور ان میں سے ایک کو حساس حصے پر مارا گیا تھا۔ ان کا معائنہ کیا گیا، ایکسرے اور الٹراسائونڈ اسکین کیے گئے، ضروری علاج فراہم کیا اور پھر فارغ کر دیا گیا۔
ادھراسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا امریکی صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔غیرملکی میڈیارپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دونوں رہنمائوں نے غزہ کو عسکریت سے پاک اور حماس کو غیرمسلح کرنے کے عزم پر تبادلہ خیال کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم دفتر کے مطابق ٹیلیفونک رابطے میں امن معاہدے کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی۔صدر ٹرمپ نے وزیراعظم نیتن یاہو کو مستقبل قریب میں وائٹ ہائوس مدعو کر لیا، اس سے پہلے ٹرمپ نے ایک بیان میں اسرائیل پر شام سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی زوردیا تھا ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل شام کے ساتھ ایک مضبوط اور حقیقی مذاکرات کو برقرار رکھے اور کوئی ایسی چیز نہ ہو جو شام کی ایک خوشحال ریاست میں تبدیلی میں مداخلت کرے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر امریکی صدر نے شام کے صدر احمد الشرع کی کارکردگی پر بڑے اطمینان کا اظہار کیا جنہوں نے 10 نومبر 2025ء کو وائٹ ہائوس کا ایک تاریخی دورہ کیا تھا۔ایک برس قبل جب احمد الشرع کے اتحاد نے شام کے دیرینہ حکمراں بشار الاسد کو معزول کیا تھا، تب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور شام کے درمیان ایک سیکورٹی معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔
تاہم شام پر اسرائیل کے سینکڑوں حملوں کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ احمد الشرع اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوری تندہی سے کام کر رہے ہیں کہ اچھے واقعات رونما ہوں اور یہ کہ شام اور اسرائیل دونوں کے درمیان ایک طویل اور خوشحال تعلقات قائم ہوں۔
دوسری جانب حماس نے کہا ہے کہ رام اللہ کے شمال میں واقع عطریت یہودی کالونی کے قریب ہونے والی خنجر بردار کارروائی فلسطینی عوام پر جاری مسلسل مظالم کے ردعمل میں ایک فطری اور واضح پیغام ہے کہ عسکری دھاوا، قتل، گرفتاریوں اور موقع پر فائرنگ جیسے واقعات کے ذریعے عوام کی ارادے کو توڑا نہیں جا سکتا۔
حماس نے اپنے بیان میں بیت ریما کے رہائشی محمد رسلان اسمر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانی سمیت تمام شہداء کی جدوجہد فلسطینی مزاحمت کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ حماس نے کہا کہ فلسطینی عوام اپنے ان بیٹوں کی لازوال قربانیوں کے امین رہیں گے جو اپنی سرزمین، اپنے وجود اور اپنی انسانی حرمت کے دفاع میں کھڑے ہیں۔
ادھرقابض اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ جنوبی غرب اردن کے شہر الخلیل کے جنوب میں واقع خلہ الحمص کے علاقے میں تقریباً 850 انگور اور زیتون کے درخت برباد کر دیے۔

