اندلس میں غازی!

دنیا بھر کا سفر کرنا ہمارے منشور میں شامل ہے۔ سنہ 2018ء میں ہم نے باقاعدہ سفر کا آغاز کیا تھا۔ اب تک یعنی 2025ء تک 25مختلف ممالک سعودیہ، ملائشیا، افغانستان، ترکی، ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، ہالینڈ، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، فرانس، بیلجیئم، پرتگال، انڈورا، اسپین، اٹلی، ویٹی کن سٹی، امارات، ہانگ کانگ وغیرہ کا وزٹ کر چکے ہیں۔ اگلے سال یعنی 2026ء میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا کا سفر متوقع ہے۔ ہم ہر سال 2سے 3ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ یوں اللہ نے زندگی دی تو 2050ء تک پوری دنیا کے 248ممالک کا وزٹ ہو جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ ممالک کی تعداد 248ہی ہے۔ ویسے اگر چھوٹے جزائر والے ممالک کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد 265 تک جا پہنچتی ہے۔ آج کے دور میں سفر کرنا ایک آرٹ اور فن بن چکا ہے۔ اگر کسی کو یہ فن اور گُر آ گیا تو انتہائی کم پیسوں میں کئی ممالک کا سفر کر لے گا اور اگر آپ کو یہ آرٹ نہیں آتا تو پھر ایک ہی ملک کے سفر سے آپ کنگال ہو کر بیٹھ جائیں گے۔

ہمیں بچپن سے ہی سفر کرنے کا شوق تھا۔ اس شوق کو مہمیز اور شہ دی عطاء الحق قاسمی، کرنل اشفاق، مستنصر حسین تارڑ، کرنل محمد خان اور مفتی تقی عثمانی کے سفرناموں نے۔ جو شخص سفرنامہ نگار بننا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابنِ بطوطہ، مستنصر حسین تارڑ، کرنل اشفاق، عطاء الحق قاسمی، کرنل محمد خان، مفتی محمد تقی عثمانی وغیرہ کے سفرنامے ضرور پڑھے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سفرنامہ کیسے لکھا جاتا ہے؟ اور کن کن باتوں کا خیال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سفرنامے کی ابتدا چھوٹے سے سفر سے کریں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان لاہور میں رہتا ہے اور کراچی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اب لاہور سے کراچی تک کا جو اس نے سفر کیا ہے، اس کی مکمل اور پوری رُوداد لکھے۔ گھر سے نکلنے بلکہ سفر کی تیاری کرنے سے لے کر کراچی اپنے تعلیمی ادارے میں پہنچنے تک کی لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم تفصیل لکھے۔ سفر کی تیاری کیسے کی؟ کیا کیا چیزیں سفری بیگ میں رکھیں؟ گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائیوں نے کیا کہا تھا؟ بہن کے کیا تاثرات تھے؟ جدائی کے وقت والدین خصوصاً والدہ محترمہ کے کیا جذبات تھے؟ گھر سے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا ایرپورٹ تک کس نے پہنچایا؟ بھائی نے، والد نے یا ٹیکسی والے نے؟ گھر سے اسٹیشن تک راستہ بھر کیا کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا؟ لاہور اسٹیشن، بس اڈّے یا ایرپورٹ پر کیا بیتی؟ پھر کراچی پہنچنے تک کیا کچھ ہوا؟ سفر میں انسان کو بے شمار تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں، لوگوں سے میل ملاپ ہوتا ہے۔ ہمسفروں سے بات چیت ہوتی ہے۔ وہ ساری باتیں سادگی کے ساتھ ایک ترتیب سے لکھتے چلے جائیں۔ سفر کی تیاری سے لے کر اپنی درسگاہ اور کلاس میں پہنچنے تک قدم بہ قدم اور لمحے لمحے کو لکھنا ہے۔ اس طرح دوچار چھوٹے چھوٹے سفروں کی لمبی لمبی تحریریں لکھنے سے آپ کو لکھنا آجائے گا۔

مختلف اسفار اور مطالعاتی دورے لازم ہوتے ہیں۔ جب بھی سفر کا موقع ملے تو ضرور کریں۔ جب بھی کسی کانفرنس، ورکشاپس اور اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور جائیں اور پھر واپس آکر اس کی پوری، مکمل اور جامع رُوداد لکھیں۔ اگر ایک گھنٹے کا بھی سفر کریں تو واپس آکر اپنے سفر کی سفر بیتی لکھیں، کہیں پر بھی جائیں واپسی پر اپنے تجربات اپنے قارئین سے شیئر کریں۔ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ اپنی تحریر میں اپنے میزبانوں، مہمانوں، شرکائے مجلس کا ذکر تفصیل سے کریں۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنے ملک کے اندر کوئی نہ کوئی سفر نہ کیا ہو۔ ہر شخص نے لازمی سفر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان سفروں کی رُودادیں لکھنے سے آغاز کریں۔ ہر سفر کے بعد اس کی سرگزشت احاطۂ تحریر میں لائیں۔ ایک دو سال تک آپ نے اس طرح کرلیا تو ایک وقت آئے گا آپ کا شمار ممتاز سفرنامہ نویسوں میں ہونے لگے گا۔ بس اپنا مطالعہ بڑھاتے رہیں۔ سفر کرتے رہیں۔ سفر کے بعد اس کی چھوٹی چھوٹی رُوداد لکھتے رہیں۔ اپنے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے کی کوشش کریں۔ نئے نئے آئیڈیاز سوچیں۔ خیالات کو آنے دیں۔ خواب دیکھیں۔ تعلقات بنائیں۔ مثبت سوچ رکھیں۔ صبر سے کام لیں۔

اب سوال یہ تھا کہ ہمارے اس شوق کی تکمیل کیسے ہو؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ سے مانگے اور اس فن کے دوست احباب اور ماہرین سے مشورہ کر لے تو کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آتی ہے، چنانچہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے بھی مانگتے رہے اور سفر کرنے والے دوستوں سے پوچھتے رہے اور ساتھ ساتھ دنیا بھر میں شائع ہونے والے سفر نامے بھی پڑھتے رہے۔ یوں 2018ء میں راستہ مل گیا۔ چنانچہ ہم نے ترکی، ناروے، ڈنمارک، سویڈن کا سفر کیا۔ یہ راستہ کیسے ملا؟ اس کی پوری تفصیل آپ ہمارے پورے کے سفرنامے ”یورپ جو ہم نے دیکھا”میں پڑھ سکتے ہیں۔ 2017ء تک ہم پورے پاکستان کی سیر کر چکے تھے۔ کراچی سے گلگت تک اور واہگہ بارڈر سے دوستی گیٹ تک گھوم پھر چکے تھے۔ اس کے بعد ہم نے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں جانا تھا، چنانچہ 2018ء میں سعودی عرب، ترکی، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ جانا ہوا۔ یورپی کنٹریز میں ہم پہلی مرتبہ گئے تھے۔ ہمارے لیے یہاں کا کلچر، ماحول، بود و باش، رہن سہن، ان کا طرزِ زندگی، کاروبار کرنے کا انداز، ان کے اخلاق و اطوار، رویّے، صفائی ستھرائی، معاشرتی مسائل، خاندانی نظام، ان کے روحانی مراکز، سب کچھ نیا اور انوکھا تھا۔ وکھری ٹائپ کا تھا۔

اسکنڈے نیویا ممالک ظاہر کے اعتبار سے دنیا کے خوبصورت ترین، حسین مناظر پر مشتمل ہیں۔ یہاں پر ہر شخص خوشحال، مالدار اور پُرامن ہے۔ ان یورپی ممالک کا سفر ہماری زندگی کا بہترین اور یادگار سفر تھا۔ ناروے میں جگہ جگہ ہمارے بیانات بھی ہوئے۔ بیرگن یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر میں طلباء طالبات سے خطاب کا موقع بھی ملا۔ سیکھنا، سکھانا اور سیر و تفریح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ہم نے ان ممالک کو کیسا پایا؟ ہم نے کیا کچھ سیکھا اور آپ کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اس کی تفصیلات آپ ہمارے سفرنامے ”یورپ جو ہم نے دیکھا” میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہ سفرنامہ الحجاز کراچی فون نمبر 0314-2139797نے دیدہ زیب کاغذ پر فور کلر میں خوبصورت بامعنی ٹائٹل کے ساتھ شایع کیا ہے۔ پاکستان بھر کے تمام بڑے کتب خانوں سے دستیاب ہے۔

2019ء میں ہم نے سوئزرلینڈ، جرمنی، ہالینڈ، ملائیشیا، شارجہ، ابوظہبی، فجیرہ، رأس الخیمہ، عجمان، ام القوین وغیرہ کا مطالعاتی وزٹ کیا۔ ہمیں جن ممالک کو دیکھنے کی شدید خواہش تھی، ان میں ملائیشیا بھی شامل تھا۔ ملائیشیا وہ ملک ہے جس نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مہاتیر محمد کی قیادت میں ملائیشیا نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ ملائیشیا برادر اسلامی ملک ہے۔ ترکی اور ملائیشیا اسلامی دنیا کے وہ دو ممالک ہیں جو تاریخی بھی ہیں اور ترقی یافتہ بھی۔ یہاں پر رہنے والے مسلمان خوشحال بھی ہیں اور دیندار بھی۔ ترکی اور ملائیشیا سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے طلباء و طالبات بڑی تعداد میں ترکی اور ملائیشیا کا رخ کر رہے ہیں۔ 2019ء میں ہمیں دوسری مرتبہ ترکی اور پہلی مرتبہ ملائیشیا جانے کا سنہری موقع ملا۔ (جاری ہے)