مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں علیحدہ ریاستی حیثیت اور خصوصی حقوق کے حق میں جاری احتجاجی تحریک پر مودی سرکار کے طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی سرکار کی ایما پر کٹھ پتلی کشمیری انتظامیہ نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تازہ واقعے میں پولیس کی فائرنگ سے مزید 4 افراد مارے گئے جب کہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے والے ماحولیاتی رہنما سونم وانگچک کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
رواں ماہ کی ابتدا سے جاری ان احتجاجی مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہوگئی جب کہ 50 سے زائد زخمی ہیں۔
ایک سینئیر پولیس افسر نے تصدیق کی کہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہنما سونم وانگچک کو پریس کانفرنس کرنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔
بھارتی وزارت داخلہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سونم وانگچک اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے عوام کو تشدد پر اکسا رہے تھے۔
مودی سرکار نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ سونم وانگچک کیتنظیم اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کا لائسنس بھی منسوخ کر دیا۔
یاد رہے کہ 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست وفاق کے زیر انتظام کر دیا تھا۔
متعصب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کردیا تھا۔
جس کے بعد سے لداخ کے عوام ریاستی درجہ بحال کرنے، ملازمتوں میں کوٹہ اور قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن کہیں سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
جس کے بعد مقامی رہنما اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ کیمپ میں عوام بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور احتجاج کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
ادھر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لداخ کے نمائندوں سے مذاکرات کا سسلہ 2023 سے جاری ہے جس کا اگلا دور 6 اکتوبر کو متوقع ہے۔