بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ, ٹرمپ نے ادویہ پر 100 فیصد ٹیرف عائد کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرملکی دواؤں، ہیوی ٹرکوں اور گھریلو فرنیچر پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا کہ امریکا میں پیداوار نہ کرنے والی کمپنیوں کی برانڈڈ یا پیٹنٹ شدہ دواؤں پر 100 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔

نئے ٹیرف کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا۔ اس اعلان کے بعد ایشیا بالخصوص بھارت کی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے شیئرز گرگئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بھارت کی ان فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو اس نئے ٹیرف چھوٹ سے ملے گی جو امریکا میں اپنے پلانٹس لگائیں گے۔

خیال رہے کہ بھارت ہر سال 10 ارب ڈالر مالیت سے زائد کی دوائیں امریکا برآمد کرتا ہے۔ جنوبی کوریا بھی اس ٹیرف کی زد میں آئے گا۔

آسٹریلیا نے 2024 میں امریکا کو تقریباً 1.3 ارب ڈالر مالیت کی ادویات برآمد کی تھی۔ اس نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔

یورپی یونین نے کہا کہ جولائی میں طے پانے والے تجارتی معاہدے کے تحت یورپی دواؤں کی برآمدات پر 15 فیصد سے زیادہ ٹیرف نہیں لگایا جا سکتا جو کہ یورپی کمپنیوں کے لیے ایک انشورنس پالیسی ہے۔

برطانیہ نے بھی امریکی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا عندیہ دیا ہے تاکہ فارماسیوٹیکل مصنوعات کے حوالے سے نرم شرائط حاصل کی جا سکیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ غیر ملکی ہیوی ٹرکوں پر 25 فیصد ٹیرف لگایا جائے گا تاکہ امریکی کمپنیوں جیسے پیٹر بلٹ، کین ورتھ، فریٹ لائنر اور میک ٹرکس کو فائدہ پہنچے۔

اس فیصلے کے بعد یورپ میں والوو (سوئیڈن) اور ڈائملر (جرمنی) کے شیئرز تیزی سے نیچے آئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسے امریکا کی “قومی سلامتی” کے تحت اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔

مزید برآں، گھریلو تزئین و آرائش کے سامان پر 50 فیصد اور اپہولسٹرڈ فرنیچر پر 30 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔

اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں امریکا میں فروخت ہونے والا 60 فیصد فرنیچر درآمدی تھا۔ اس اعلان کے بعد گھریلو ریٹیلرز وی فئیر اور ولیمز سونوما کے شیئرز میں نمایاں کمی آئی۔

یاد رہے کہ ٹرمپ حکومت پہلے ہی ہر ملک پر کم از کم 10 فیصد ٹیرف عائد کر چکی ہے جب کہ کینیڈا، میکسیکو اور چین جیسے شراکت دار ممالک پر اضافی شرحیں قومی سلامتی، منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ہجرت جیسے مسائل کے تناظر میں لاگو کی جا چکی ہیں۔

یہ اب تک واضح نہیں کہ نئے ٹیرف پالیسی میں پہلے سے موجود اقدامات کے ساتھ کس طرح شامل ہوں گے۔