پاک سعودیہ تعلقات میں تاریخی پیشرفت

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اہم دفاعی معاہدہ دنیا خصوصاً ہندوستان اور اسرائیل کو پریشان کر گیا ہے۔ یہ دفاعی معاہدہ اگرچہ دونوں ممالک کے مابین ہے اور اس کا تعلق کسی اسلامی فوج یا کسی مخصوص اسلامی کاز سے ہرگز نہیں ہے، تاہم اس کے اثرات آنے والے دنوں میں اسلامی ممالک اور ان سے جڑے مسائل پر براہِ راست مرتب ہوں گے۔ سعودی عرب، جس کا قومی دن اسی ماہ 30 ستمبر کو منایا جاتا ہے، اس سے قبل پاک سعودیہ دفاعی معاہدے نے ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔ اب اسرائیل سعودی عرب کے خلاف کوئی جارحیت کرنے کی غلطی نہیں کرے گا، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے اس بار سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ اس کا گریٹر اسرائیل کا خواب ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے۔ ریاض میں بدھ کو ہونے والے تاریخی معاہدے کے تحت یہ واضح کیا گیا کہ کسی بھی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی شراکت داری تہائی دہائیوں پر محیط تاریخی تعلق ہے اور دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے پیش نظر یہ معاہدہ طے پایا۔

32 ملین سے زائد آبادی والا ریگستانی ملک، جس کے پاس دنیا کے بڑے تیل ذخائر ہیں اور جس کے پاس دنیا کے مجموعی تیل ذخائر کا ایک بڑا حصہ موجود ہے، دنیا کی دس مضبوط معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 30 ستمبر سعودی تاریخ میں ایک اہم دن ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے سعودی قومی دن سے چند روز قبل سعودی عرب کا دورہ کیا اور برادر ملک سعودی عرب کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دونوں ممالک نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں اور اس دفاعی معاہدے سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ مذہبی و تاریخی اعتبار سے سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ جدید سعودی ریاست کی بنیاد 1932 میں شاہ عبدالعزیز نے رکھی اور ان کے بعد شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ فہد اور شاہ عبداللہ نے سعودی عرب اور امتِ مسلمہ کے لیے اہم اقدامات کیے۔ چاہے حرمینِ شریفین کی توسیع ہو یا فلسطین و کشمیر کے مسائل، پاک بھارت جنگ ہو یا ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیاں دنیا بھر میں قدرتی آفات یا جنگوں سے تباہ حال مسلمانوں کی مدد، یا خارجہ پالیسی میں تعاون سعودی عرب کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔سعودی عرب میں اس وقت وسیع پیمانے پر جدید ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ شاہ سلمان کی قیادت میں چند برس قبل بڑے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا اور وژن 2030 اور قومی تبدیلی کے پروگرام کے تحت متعدد منصوبوں پر کام کی رفتار تیز ہو چکی ہے۔ یہ منصوبے انفراسٹرکچر، سیاحت، صحت، تعلیم اور رہائش کے شعبوں میں ہیں۔ سعودی حکومت پہلی بار مربوط علمی، معاشی، تفریحی اور دینی منصوبوں پر جامع انداز میں کام کر رہی ہے، اس کی ایک مثال شاہ عبداللہ مالیاتی مرکز کا منصوبہ ہے، جو دبئی کے بین الاقوامی مالیاتی مرکز کے طرز پر وضع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت بینک، مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں، آڈیٹرز اور وکلا ایک ہی مرکز میں جمع کیے جائیں گے۔ مدینة العلم (Economic Knowledge City) سعودی عرب کے چھوٹے شہروں کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے۔

پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے کئی بار اپنے بیانات میں کہا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے وژن 2030 میں شراکت کا خواہاں ہے اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے ہر شعبے میں باہمی اشتراک کا حامی ہے۔ پاکستانی عوام کے دل سعودی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، کئی لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں سب سے زیادہ عطیات سعودی حکومت اور عوام نے دیے اور اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں میں بھی سعودی امداد جاری ہے، تاہم اب بات صرف امداد تک محدود نہیں رہی بلکہ معاشی تعاون کی جانب بھی گامزن ہے۔ پاکستان نے بھی ہر موڑ پر سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی یہ دوستی کئی ممالک کو ناگوار گزری ہے اور کئی بار سازشیں کی گئی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کی جائیں، مگر دونوں ممالک کے رہنماؤں، صحافیوں اور مذہبی قیادت نے برادر ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں متعدد معاشی اور ترقیاتی معاہدے ہوئے ہیں، اور مزید تعاون کی گنجائش ابھی باقی ہے۔اس دفاعی معاہدے نے ایک اور اہم پہلو بھی اجاگر کیا ہے کہ اسلامی دنیا کے بڑے ممالک جب مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں تو نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بدلتا ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایٹمی قوت ہے اور سعودی عرب کے پاس معاشی طاقت و وسائل یہ امت مسلمہ کے لیے ایک شاندار امتزاج ہے۔ اگر دونوں ممالک اس معاہدے کو محض کاغذی کارروائی سے نکال کر عملی شکل دیتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ مسلم دنیا کے لیے بھی ایک نئی راہ کا تعین کرے گا۔ یہ معاہدہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مسلم ممالک اگر اتحاد اور باہمی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں تو کوئی طاقت انہیں دبانے یا ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔