پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدہ اور پروپیگنڈا

کہتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ بہادروں کی عزت کرتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کمزور اور بزدل قوموں کی رائے کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات انہیں دوسروں کی غلامی میں بھی دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس سنہری قول کی زندہ مثال دیکھنی ہو تو حالیہ پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے۔ پاکستانی مسلح افواج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر نہ صرف اپنی سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ اس کامیابی کے بعد پاکستان کی عزت و وقار میں بے پناہ اضافہ ہوا اور عالمی سطح پر ہماری قیادت کو ایک نئے انداز سے سراہا جانے لگا۔ یہ وہی پاکستان ہے جس نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کے ذریعے دنیا کو اپنی دفاعی قوت منوائی تھی۔ پھر 10 مئی 2025 تاریخ کا وہ دن ہے جب ریاست پاکستان نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی آزادی اور سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔

اسی سلسلے کی ایک اور اہم کڑی 17 ستمبر 2025 ہے، جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک عظیم دفاعی معاہدہ طے پایا۔ یہ دن دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں گی۔ اس معاہدے نے نہ صرف مسلم دنیا کو ایک نئی توانائی بخشی بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی یہ باور کرایا کہ مسلم ممالک اب بکھرے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنی آزادی، خودمختاری اور مشترکہ دفاع کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ اتحاد اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب صرف دو ریاستیں نہیں بلکہ ایک عقیدے، ایک تاریخ اور ایک مشترکہ تقدیر کے امین ہیں۔

اس معاہدے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے مشترکہ دفاع کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ اگر کسی ایک ملک پر جارحیت ہوتی ہے تو اسے دونوں ریاستوں کے خلاف جارحیت سمجھا جائے گا۔ یہ اصول نیٹو طرز کے دفاعی معاہدے کی یاد دلاتا ہے، مگر اس کا دائرہ کار کہیں زیادہ بامعنی ہے کیونکہ یہ تعلقات صرف عسکری نہیں بلکہ دینی، تہذیبی اور برادرانہ بنیادوں پر قائم ہیں۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان (ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اردو زبان میں اپنے پیغام میں کہا: ”سعودیہ اور پاکستان۔۔۔ جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔۔ ہمیشہ اور ابد تک۔”

یہ پیغام محض الفاظ نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان قائم ہونے والے تعلقات کی گہرائی اور اخوت کی عملی تصویر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ نہایت روشن اور شاندار ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سعودی عرب نے ہر نازک موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ چاہے 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کا بحران، چاہے افغان جنگ کا دور ہو یا پاکستان پر لگنے والی اقتصادی پابندیاں، سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی چارے کا مظاہرہ کیا۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی حرمین شریفین کے دفاع کو اپنا ایمان سمجھا ہے۔ پاکستانی عوام کے دلوں میں سعودی عرب کیلئے خاص محبت اور عقیدت ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو اس نئے دفاعی معاہدے کو مزید مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان ایک کاغذی کارروائی نہیں بلکہ خطے کی سیاست اور عالمی توازن پر گہرے اثرات ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد دشمن قوتوں بالخصوص بھارت اور اسرائیل کی نیندیں اڑ جانا فطری امر ہے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اسرائیل عالم اسلام کی وحدت سے خائف رہتا ہے۔ ایسے میں دو اہم مسلم ممالک کا مشترکہ دفاعی معاہدہ ان کے عزائم کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ مزید یہ کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کیلئے دفاعی صنعت، ٹیکنالوجی اور عسکری تعاون کے نئے دروازے کھلیں گے۔ مشترکہ مشقیں، انٹیلی جنس شیئرنگ اور ہتھیاروں کی تیاری میں اشتراک نہ صرف دونوں ممالک کے دفاع کو مضبوط کرے گا بلکہ امت مسلمہ کے دیگر ممالک کیلئے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔امید کی جاتی ہے کہ اس معاہدہ میں دیگر عرب ریاستیں بھی شامل ہوجائیں گی۔

جہاں ایک طرف دونوں حکومتیں اور عوام اس معاہدے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں، وہیں پاکستان میں کچھ سیاسی حلقے اپنی روایتی روش کے مطابق تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو ہمیشہ قومی مفاد سے زیادہ ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دیتا آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کی جانب سے اس معاہدے کے خلاف پروپیگنڈا تو سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ ان کی پالیسی ہی پاکستان اور مسلم دنیا کو کمزور کرنا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر پاکستان کے اندر موجود چند عناصر کیوں ریاست مخالف بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں؟ یہ عناصر دانستہ یا نادانستہ دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر پاکستان کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور تمام ریاستی ادارے اس حوالے سے ہوشیاری سے کام لیں۔ پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور عوام کو بتایا جائے کہ یہ لوگ دراصل کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 40 میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست دیگر مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کو تنقید کا نشانہ بنانا دراصل آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے۔

ریاست کو چاہیے کہ ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ دشمن قوتوں کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستانی قوم اپنے قومی مفاد کے خلاف کسی قسم کا پروپیگنڈا برداشت نہیں کرے گی۔ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ملکوں کیلئے بلکہ پوری امت مسلمہ کیلئے امید کی کرن ہے۔ آج جب عالم اسلام دہشت گردی، فرقہ واریت اور بیرونی مداخلت جیسے مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں یہ معاہدہ اتحاد، یکجہتی اور دفاعی تعاون کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ لمحہ قوم کے لئے خوشی اور فخر کا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس تاریخی موقع پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، پروپیگنڈا کرنے والوں کی باتوں میں نہ آئیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔