بڑھتی ہوئی آبادی،آخر حل کیا ہے؟

بچے دو ہی اچھے، مگر کس کے لئے؟ ماں باپ کے لئے؟ حکومت کے لئے یا عالمی اداروں کے لئے؟
بچے دو ہی اچھے کا نعرہ، کیا یہ صرف ایک سلوگن ہے یا گلوبل بیانیہ ہے؟؟ 11 جولائی آبادی کا عالمی دن ہوتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد آبادی سے متعلق مسائل کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرنا بتایا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 1990 کی قرارداد 45/216 کے تحت فیصلہ کیا کہ ورلڈ پاپولیشن ڈے کو مستقل طور پر منایا جائے تاکہ آبادی سے جڑے کے بارے میں شعور پیدا کیا جا سکے۔یہ دن پہلی بار 11 جولائی 1990 کو 90 سے زائد ممالک میں منایا گیا۔ تب سے اب تک اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے (خصوصا UNFPA)، مختلف تنظیمیں، حکومتیں اور سول سوسائٹی مل کر اسے مناتے ہیں ، چنانچہ حسب روایت اس بار بھی اس دن مختلف حلقوں میں ان چیزوں پر باتیں ہوئیں۔

اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق جولائی 2025 تک دنیا کی آبادی تقریبا 8.23 ارب سے تجاوز کر چکی ہے، جو انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کا ادارہ UNFPA نہ صرف فیملی پلاننگ کی سہولیات فراہم کرتا ہے بلکہ تولیدی صحت کے فروغ، ماں اور بچے کی صحت کی بہتری، اور نوجوانوں میں شعور اجاگر کرنے جیسے اقدامات بھی کرتا ہے۔ ادارہ مختلف ممالک کے ساتھ مل کر آبادی سے متعلق درست اور تازہ ترین ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے، تحقیق کے ذریعے پالیسی سازی میں معاونت فراہم کرتا ہے، اور ایسی حکمت عملی ترتیب دیتا ہے جو افراد اور معاشروں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔آبادی کنٹرول کرنے اور فیملی پلاننگ سے متعلق مغربی نظریہ یہ ہے۔مغربی دنیا میں “فیملی پلاننگ” کو ایک سماجی، طبی اور معاشی ضرورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس کی ترویج کے لیے کئی عالمی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) سرگرمِ عمل ہیں۔

ان اداروں کا موقف ہے کہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ وسائل پر شدید دباؤ ڈالتا ہے، ماں اور بچے کی صحت متاثر ہوتی ہے، اور تعلیم، روزگار و ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں چھوٹا خاندان، زندگی آسان اور بچے دو ہی اچھے جیسے نعرے مغربی پالیسی کا حصہ بنے۔ امریکا میں قائم ایک تحقیقی ادارہ ہے، دنیا بھر میں تولیدی صحت، مانع حمل کے طریقے اور خواتین کے تولیدی حقوق پر کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ پالیسی سازوں کو سائنسی شواہد فراہم کر کے آبادی کنٹرول سے متعلق فیصلوں میں رہنمائی دیتا ہے۔اسی طرح MSI Reproductive Choices دنیا کے 37 سے زائد ممالک میں مانع حمل خدمات، تولیدی مشورہ اور محفوظ اسقاطِ حمل کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعداد اور ان کے درمیان فاصلہ خود طے کرے۔

Population Foundation of India (PFI) بھارت میں فیملی پلاننگ کے فروغ کا ایک فعال ادارہ ہے، جس نے سرکاری تعاون سے بچے دو ہی اچھے جیسے نعروں کو گھروں تک پہنچایا۔ یہ ادارہ عوامی آگاہی، میڈیا کمپینز، اور سوشل سروے کے ذریعے چھوٹے خاندان کے فائدے بیان کرتا ہے۔ان اداروں کے خیالات کی علمی پشت پناہی ایسے مغربی مفکرین کرتے ہیں جیسے Paul Ehrlich، جنہوں نے اپنی مشہور کتاب The Population Bomb میں دعوی کیا کہ بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کو قحط، ماحولیاتی تباہی اور معاشی عدم توازن کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فیملی پلاننگ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آنے والے برسوں میں انسانیت کے لیے حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے۔ان تمام اداروں کا متفقہ و مشترکہ موقف یہ ہے کہ فیملی پلاننگ ایک انسانی حق ہے، جس کے ذریعے نہ صرف افراد اور خاندانوں کی صحت بہتر بنائی جا سکتی ہے بلکہ قومی ترقی، وسائل کی پائیدار تقسیم اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

بڑھتی آبادی سے متعلق مغربی اداروں اور مفکرین کے نظریے سے آپ واقف ہو چکے ہیں۔ وہاں کا عمومی تصور یہ ہے کہ وسائل محدود ہیں، اور آبادی میں اضافہ ان وسائل پر بوجھ ہے۔ یہی سوچ ترقی پذیر ممالک میں بھی درآمد کی جا رہی ہے، اور دو بچے اچھے جیسے نعرے عام کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اسلام کا زاویہ اس سے مختلف ہے۔اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے، اور اس نعمت کی کثرت رحمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زیادہ بچے دینے والی محبت کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا (سنن ابی داؤد 2050)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی کثرت نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ باعثِ فخر ہے۔شادی کا ایک اہم مقصد صرف خواہشات کی تکمیل یا وقتی سکون نہیں، بلکہ انسانی نسل کی بقا اور دینِ اسلام کے علمبرداروں کی افزائش بھی ہے۔ اگر مسلمان بھی مغرب کی تقلید کرتے ہوئے تولید کو بوجھ سمجھنے لگیں، تو نہ صرف ان کی روحانی اقدار خطرے میں پڑ جائیں گی بلکہ ان کا سماجی وجود بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑ جائے گا۔ آج کئی مغربی ممالک اپنی گرتی ہوئی آبادی کی وجہ سے لیبر فورس کی کمی، خاندانی نظام کی تباہی اور نسل پرستی جیسے بحرانوں کا شکار ہیں۔شرعی طور پر دو بچوں کے درمیان وقفے کے لیے کوئی مقررہ حد نہیں ہے تاہم اگر ماں کی صحت، نفسیاتی یا طبی حالت، یا دیگر معتبر اسباب ہوں تو عارضی وقفہ اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ بھی ان طریقوں کے ذریعے جو شریعت کی حدود سے متجاوز نہ ہوں۔ مستقل مانع حمل تدابیر، یا دو بچے ہی کافی ہیں جیسے نعرے، اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ یہ دراصل انسان کے رب پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم اولاد کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ تعلیم، ادب، اخلاق، اور دین داری کے ساتھ بچوں کو پروان چڑھایا جائے تاکہ وہ نہ صرف ایک ذمہ دار شہری بنیں بلکہ دین کے سچے نمائندے بھی ہوں۔ اگر ایک فرد بھی صالح ہو، تو وہ پورے معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید کے بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں نسل کے تصور کو دیکھیں۔ اولاد اللہ کی امانت ہے، اس امانت کو قبول کرنا، سنوارنا اور پروان چڑھانا ہی دراصل ایک مسلمان کا فریضہ ہے۔