مسلم حکمرانوں کا دوہرا معیار

گزشتہ دنوں سب سے بڑی خبر کابل سے آئی، جہاں اعلان ہوا کہ روس نے افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح روس پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان حکومت کے سفیر کو قبول کیا اور دوطرفہ تعلقات میں وسعت دینے کی بات کی۔ اسی کے ساتھ ماسکو میں افغان سفارت خانے پر امارتِ اسلامی کا سفید پرچم لہرا دیا گیا۔

خبر کے مطابق افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے روسی فیڈریشن کے سفیر جناب دیمتری ژیرنوف نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں روسی سفیر نے روسی حکومت کا باضابطہ فیصلہ پہنچایا، جس کے تحت روس نے امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کر لیا ہے۔ روسی سفیر نے اس فیصلے کو دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔ افغان وزیر خارجہ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ اور تعمیری قدم ہے، جو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو وسعت دے گا اور دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔ یوں روس وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے افغانستان کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔

اگرچہ پاکستان نے بھی ایک ماہ قبل کہا تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات اپنے نمائندے کو سفیر کا درجہ دے گا اور پاکستان میں بھی افغان نمائندے کو باضابطہ سفیر کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا، لیکن اب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔روس کی جانب سے افغان حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد اب لوگوں کی نگاہیں پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ جیسے اسلامی ممالک پر لگی ہوئی ہیں ۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چین بھی اگر طالبان حکومت کو تسلیم کرلیتا ہے تو پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔

دوسری اہم خبر ابراہیم معاہدے سے متعلق ہے، جس کے بارے میں اطلاعات گردش میں ہیں کہ جلد ہی چار بڑے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنے اور نوبیل انعام حاصل کرنے کی خاطر پہلے مرحلے میں غزہ میں جنگ بندی کروانا چاہتے ہیں اور اگلے مرحلے میں وہ اپنے مشہور زمانہ ”ابراہیمی اکارڈ“ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے دوریاستی حل کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جاچکا ہے، سعودیہ کے بعد یقینا پاکستان پر بھی دباو بڑھے گا کیا پاکستان معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ یا یہ سب کچھ صرف امریکی و اسرائیلی پروپیگنڈا ہے؟

یہ سوالات اس وقت اور بھی اہم ہو جاتے ہیں جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص لابی معاہدہ ابراہیمی کےلئے ذہن سازی کا کام تیز کر چکی ہے۔ ان افراد میں ایک نمایاں نام خواجہ آصف کا ہے، جو ایران کے لیے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بھارت کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں، لیکن جب بات افغانستان کی آتی ہے تو ان کے لہجے میں تلخی نمایاں ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ یہ سب کس کے اشارے پر کر رہے ہیں؟اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلم عوام اس صورتحال پر کیا ردِعمل دیتے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کی علامت حماس اور اہلِ غزہ اس وقت تنہا دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی ضمیر خاموش ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب چاہتے ہیں کہ غزہ میں قتل عام جلد مکمل ہو تاکہ وہ بین الاقوامی دباو سے نجات پا سکیں لیکن غزہ والے لوہے کے چنے ثابت ہورہے ہیں،انہوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔کاش کے انہیں مسلم حکمرانوں کی جانب سے بھی کچھ تعاون مل جائے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مسلم حکمران تو بس اپنی کرسیوں کے بارے میں ہی فکر مند ہیں۔ امت کی امنگوں، مظلوموں کی فریادوں اور غزہ کے بھوکے، نڈھال بچوں کی آہوں کا وزن ان کے ضمیر پربوجھ نہیں ڈالتا۔ کیا ریاض سے لے کر اسلام آباد تک موت، خوف، بے حسی اور بے غیرتی کا سناٹا چھایا ہوا ہے؟ شرمناک بات تو یہ ہے کہ نہ صرف یہ حکمران خود کچھ کر رہے ہیں، بلکہ اپنے عوام کو بھی احتجاج کی اجازت نہیں دے رہے۔ کیا اس طرزِ عمل سے اسرائیل کو مزید شہ نہیں ملے گی؟ کیا یہ عمل اسرائیل کے مظالم کی خاموش حمایت نہیں؟ امریکا اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور بھارت بھی اسرائیلی موقف کی تائید کر چکا ہے۔ پاکستان پر بھی گزشتہ چھ ماہ سے امریکی دباو¿ ہے کہ وہ ایران کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور اسرائیل کی مخالفت ترک کر کے خاموشی سے اسے تسلیم کر لے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان اور مسلم دنیا فیصلہ کرے۔ اگر وہ غیرجانبدار رہتے ہیں تو یاد رکھیں، کل اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو دنیا بھی غیرجانبدار رہ سکتی ہے۔ اسرائیل پہلے بھی بھارت کی مدد کر چکا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دے چکا ہے۔ اب فیصلے کا وقت ہے۔ اتحاد اور خودداری کی راہ اپنانے کا وقت ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی دھمکیوں سے نکلنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہے۔ اگر اب بھی ہم نے کچھ نہ کیا تو دشمن باز نہیں آئیں گے۔ وہ ہمیں باری باری نشانہ بنائیں گے۔

یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آئندہ کون کون سے ممالک افغانستان کو تسلیم کرتے ہیں اور کون سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں آگے نکل کر بے نقاب ہوتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور آج بھی وہ ناجائز ریاست ہے۔ آج بھی اس کے مظالم جاری ہیں۔ اس کو تسلیم کرنا قائد کی روح کو اذیت دینے کے متراد ف ہوگا۔ سوال صرف غزہ یا کابل کا نہیں، سوال پوری امتِ مسلمہ کا ہے!