تیسری وآخری قسط:
جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس تقسیم میں حضرت عمر ؓ نے جو درجہ بندی کی تھی، اس میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جو حضرت عمر ؓ کے بیٹے تو ہیں ہی لیکن ان کا اپنا تعارف بھی ایک جلیل القدر صحابی اور بڑے محدث اور فقیہ کے طور پر ہے۔ وہ اور حضرت حسینؓ وظائف کی اس تقسیم کے مطابق ایک درجے میں آتے تھے، لیکن حضرت عمر ؓنے وظیفہ میں فرق رکھا ہوا تھا کہ حضرت حسینؓ کو پانچ سو درہم زیادہ دیتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو پانچ سو درہم کم دیتے تھے۔ ”کتاب الاموال“ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جناب عمر ؓ سے ایک دن شکوے کے طور پر کہا کہ ابا جی! آپ مجھے وظیفہ پانچ سو کم دیتے ہیں اور حسین کو پانچ سو زیادہ دیتے ہیں، حالانکہ تقسیم کے اعتبار سے ہم ایک ہی درجے میں آتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے انہیں ڈانٹا۔ فرمایا کہ حسین کے مقابلے کی بات مت کرو، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں۔ فرمایا عبداللہ! حسین کے نانا کی برکت سے تمہارا باپ امیر المومنین ہے، ورنہ ہم تو بکریاں چرانے والے لوگ تھے، ہمیں کس نے پوچھنا تھا۔ آج تم جو امیر المومنین کے بیٹے کہلاتے ہو تو حسین کے خاندان کی برکت ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں بات نہ کرنا۔
حضرات صحابہ کرامؓ کے حوالے سے بے شمار روایات ہیں کہ خاندان نبوت اور حضرات صحابہ کرامؓ کا باہمی محبت و اعتماد کا تعلق کیا تھا۔ میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں بھائی قیامت تک کے لیے امت کے لیے اسوہ ہیں۔ ایک بھائی عزیمت کے حوالے سے کہ حضرت حسینؓ نے جس بات کو غلط سمجھا ہے، غلط کہا ہے اور اس پر ڈٹ گئے ہیں۔ میں تاریخ کی تفصیلات میں نہیں جاتا، تاریخ میں اس حوالے سے بہت سے مباحث ہیں، میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت حسینؓ نے جس بات کو غلط سمجھا ہے، اس پر مصالحت نہیں کی اور اس پر انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا، یہ عزیمت کی علامت تھی اور حضرت حسن ؓ نے جو بات سمجھی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے یہ قربانی ضروری ہے تو انہوں نے قربانی دی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنے ان نواسوں کے لیے محبت و شفقت کے کلمات مختلف اوقات میں صادر ہوئے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنہ“ کہ حضرت حسن اور حضرت حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان دونوں نواسوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کو زندہ رکھا ہے اور امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔
آج ہم بہت سے غیر متعلقہ مباحث میں پڑ جاتے ہیں لیکن ضروری بات یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی قربانی کا تقاضا کیا ہے؟ حضرت حسینؓ کی جو یزید کے ساتھ کشمکش تھی تو ان کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ انہیں بطور خلیفہ کے یزید پر اطمینان نہیں تھا اور وہ اسے اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ جس منصب پر حضرت صدیق اکبر ؓ بیٹھے تھے، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ ؓ بیٹھے تھے، وہ اس منصب کا یزید کو اہل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ اس بات سے اندازہ کیجئے کہ اس منصب پر حضرت معاویہؓ تقریباً بیس سال رہے تو حضرت حسینؓ ان کی رعایا میں رہے اور کبھی کوئی اشکال نہیں ہوا لیکن حضرت معاویہؓ کی رہنمائی اور قیادت میں تقریباً دو عشرے رہنے کے بعد یزید پر اگر ان کے اعتراضات ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتراض بنو امیہ پر نہیں تھا بلکہ یہ یزید کی ذات پر تھا۔ اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی کشمکش تھی۔ اگر بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیان کش مکش کی بات ہوتی تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کا اعتراض حضرت معاویہؓ پر ہوتا، حضرت حسنؓ صلح نہ کرتے اور حضرت حسین ؓصلح قبول نہ کرتے اور بیس سال اس صلح کے ماحول میں نہ گزارتے اور ان سے وظائف وصول نہ کرتے۔ جب یہ سب کچھ ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کو جو اشکال تھا وہ بنو امیہ پر نہیں بلکہ یزید کی ذات پر تھا کہ انہیں یزید کی ذات اس منصب کا اہل نہیں دکھائی دیتی تھی جس پر حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد حضرت معاویہؓ بیس سال حکومت کرتے رہے۔
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم آج حضرت حسینؓ کا نام تو بہت لیتے ہیں لیکن آج جتنے لوگ بھی عالمِ اسلام میں، مسلم دنیا میں حکمرانی کر رہے ہیں، ان میں منصب کا اہل کون کون ہے اور ہمارا ان کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ یعنی جو اصل مقصد اور مشن تھا اس کے ساتھ تو ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور جو ایک ظاہری بات ہے اس پر ہم تقریریں کرتے ہیں، مضمون لکھتے ہیں اور خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے اور ان کا حق اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اپنی محبت اور نسبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان سے رہنمائی حاصل کریں لیکن حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا اصل مشن کیا تھا؟ دو حوالوں سے میں اس پر بات کرنا چاہوں گا۔ ایک اس حوالے سے کہ آج امت کتنے حصوں میں تقسیم ہے؟ امت کی وحدت کے لیے حضرت حسنؓ آج ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ ہمارے حکمران ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہو جائیں تو امت کی وحدت کا نظام آج بھی بن سکتا ہے۔ آج کے حالات میں ہماری امت کی سب سے بڑی ضرورت وحدت ہے اور اس کے لیے حضرت حسنؓ ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔
امت کی وحدت کے حوالے سے یہ بھی دیکھیں کہ آج ہم مسلمان جس طرح دنیا میں تقسیم ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دشمن قوتوں کے ساتھی بن جاتے ہیں، اس میں حضرت معاویہ ؓ کے ایک تاریخی واقعے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ جس زمانے میں حضرت علیؓ کی اور حضرت معاویہؓ کی جنگ تھی۔ آپس میں آمنے سامنے تھے تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت روم کے بادشاہ نے اس جنگ کا حال دیکھ کر حضرت معاویہؓ کو پیغام بھیجا کہ اس جنگ میں اگر تمہیں میری مدد کی ضرورت ہو تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ جب قیصر روم نے حضرت معاویہؓ کو پیغام بھیجا کہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں تو حضرت معاویہؓ نے بڑا سخت جواب دیا۔ فرمایا یاد رکھو! میری اور علی کی جنگ آپس کی بھائیوں کی جنگ ہے۔ بھائی آپس میں لڑ پڑتے ہیں، چچا بھتیجا لڑ پڑتے ہیں، باپ بیٹا لڑ پڑتے ہیں۔ فرمایا یاد رکھو! اگر تم نے اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور علیؓ کے خلاف تم نے کوئی فوجی قدم اٹھایا تو علیؓ کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف لڑنے والوں میں معاویہ پہلا سپاہی ہوگا۔ ہماری آپس کی جنگ تمہارے فائدے کا باعث نہیں بنے گی۔
آج ان بزرگوں کا یہ اسوہ حسنہ ہمارے لیے نمونہ اور رہنمائی ہے۔ ہم مسلم ممالک اور اقوام اس طرز عمل کو سامنے رکھ لیں کہ ہم نے آپس کے جھگڑے نمٹانے ہیں اور اپنے جھگڑوں سے کسی دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا۔ لیکن آج ہماری صورتحال کتنی افسوسناک بلکہ شرمناک ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ہماری لڑائیوں سے دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ اس تناظر میں حضرت معاویہؓ کا یہ تاریخی جملہ ہمارے لیے اسوہ، نمونہ اور رہنمائی ہے۔اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امت کی وحدت کے لیے جو قربانی دی، خلافت سے دستبرداری اختیار کر کے حضرت معاویہؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور پھر ان کا پورا خاندان حضرت معاویہؓ کی وفات تک ان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ قائم رہا۔ یہ ان کا ہمارے لیے اسوہ ہے اور آج کے حالات میں ہمارے لیے رہنمائی کی بات ہے۔ اور یہ جو ہمارے ملکوں میں ظالمانہ نظام ہیں، مسلم ممالک میں ہم مسلمان اسلام کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دنیا میں کہیں بھی قرآن و سنت کی اور خلافت کی حکمرانی مکمل طور پر نہیں ہے، یہ جو نوآبادیاتی دور کے ظالمانہ نظام ہم پر مسلط ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانا، محنت کرنا اور حالات کے تناظر میں، آج کے حالات کے ظروف میں ان نظاموں کے بدلنے کی کوشش کرنا حضرت حسینؓ کا اسوہ ہے اور ہمارے لیے ان کی رہنمائی ہے۔
خاندان نبوت کے ساتھ محبت کا اظہار ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم اہل السنة والجماعة تو فرق کرتے ہی نہیں ہیں کہ ہم جب صحابہ کا لفظ بولتے ہیں تو ان میں اہل بیت از خود شامل ہوتے ہیں، ہمیں تفریق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ہم الگ طور پر بھی بول دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب صحابہ کا ذکر ہوتا ہے تو اس دائرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی آتی ہیں، خاندان بھی آتا ہے، اولاد بھی آتی ہے، اور نواسے نواسیاں بھی آتی ہیں۔ یہ سب صحابہ کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں، الگ سے ذکر کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی اہلِ بیت کا مستقل ذکر نسبت اور محبت کی بات ہے۔ ہم اہل السنة والجماعة صحابہ کرام کے ساتھ جیسی محبت رکھتے ہیں الحمد للہ اہل بیت عظام کے ساتھ بھی ہماری محبت ویسی ہی ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض روایات میں اہل بیت کی محبت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ہمارے ہاں توازن اور اعتدال ہے۔ ہم نہ کسی کے حق میں کمی کرتے ہیں، نہ کسی کو ایک حد سے آگے بڑھاتے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام کے بارے میں ایک بڑا عجیب جملہ فرمایا ہے جو ہم جمعہ کے خطبے میں اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ”من احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم“ کہ جس کو مجھ سے محبت ہے اس کو صحابہ کرام سے محبت ہوگی، اور جس کو مجھ سے بغض ہے اس کو ان کے ساتھ بغض ہوگا۔ اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں، میرا خاندان ہے، ان کے ساتھ محبت ایمان کی علامت ہے اور ان کے ساتھ بغض نفاق کی علامت ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام، ازواج مطہرات، اہل بیت عظام اور حضور کا خاندان، ان سب کے ساتھ ہمیں محبت، اعتبار، احترام اور عقیدت ہے، اور ان کی بے احترامی کو ہم ایمان کے تقاضوں کے منافی سمجھتے ہیں۔
