امدادی آٹے میں زہریلی گولیاں برآمد، غزہ کےلئے امریکی امداد پر سوالات اُٹھ گئے

رپورٹ: علی ہلال
غزہ کی پٹی میں امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ تعاون سے بننے والے امدادی ادارے’ غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف فاونڈیشن‘ کی جانب سے امداد کے طور پر دیے جانے والے آٹے کی بوریوں میں زہریلی گولیوں کی برآمدگی نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
امریکا سات اکتوبر سے جاری غزہ پرصہیونی جارحیت میں اسرائیل کے ساتھ علیٰ الاعلان کھڑا ہے۔ امریکا نے اس دوران پانچ مرتبہ اسرائیل کے حق میں جنگ بندی کے خلاف قرارداد ویٹو کیا ہے۔ امریکا نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ تنازعے کے دوران اسرائیل کے حق میں مجموعی طور پر پانچ مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا ہے: اکتوبر 2023ء : برازیل کی پیش کردہ ایک ریزولوشن جس میں غزہ کے شمالی حصوں سے شہریوں کی نقل مکانی کی ہدایات واپس لینے اور انسانی وقفے کی شمولیت کی تھی، اسے امریکا نے ویٹو کیا ۔دسمبر 2023ء: مزید ایک فوری انسانی وقفے کی تجویز ویٹو کی وجہ سے منظور نہ ہوسکی۔ فروری 2024ءعرب حمایت یافتہ فوری انسانی وقفے کی ریزولوشن کو امریکی ویٹو کا سامنا کرنا پڑا۔ نومبر 2024ء: چوتھی بار امریکا نے فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی پر مبنی قرارداد کو ویٹو کیا ۔ جون 2025ء:حال ہی میں سلامتی کونسل میں پیش کردہ فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کی قرارداد کو بھی امریکا نے ویٹو کیا ۔
رپورٹ کے مطابق امریکا نے اسرائیل کو سات اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ میں فوجی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی کی مد میں$17.9 بلین کا ریکارڈ مالی پیکیج دیا ہے۔ براون یونیورسٹی کے’ Costs of War‘ پروجیکٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے اسرائیل کو 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے تقریباً $17.9 بلین فوجی امداد اسرائیل کو فراہم کی گئی جس میں ہتھیار، بم، گولہ بارود اور اسٹاک پائل سے اخراج شامل ہے۔ اس کے علاوہ مزید علاقائی آپریشنز پر اضافی اخراجات بھی اس کا حصہ ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی آپریشنز (مثلاً یمن و لبنان) پر مزید $4.86 بلین خرچ ہوئے جس کے ساتھ امریکا کی جانب سے اسرائیل کو اس جنگ کے دوران مجموعی طور پر کل امداد تقریباً $22.8 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اونروا کے ساتھ تمام بین الاقوامی اداروں کی امداد تقسیم پر پابندی عائد کردی ہے۔

غزہ میں قیامت خیز رات، آگ و بارود کا طوفان، زمین کانپتی ہے، آسمان آگ برساتا ہے!

27 مئی سے امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ تعاون سے غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف فاونڈیشن کے نام سے ایک ادارے کو امداد تقسیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس ادارے کے قیام سے اب تک اس پر تنقید ہورہی تھی تاہم گزشتہ دنوں ادارے کی جانب سے تقسیم ہونے والے امدادی آٹے میں زہریلی گولیوں کی برآمدگی نے امریکا کے انسانی حقوق کے حوالے سے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ غزہ ہیومینیٹرین فاونڈیشن کی جانب سے تقسیم کیے گئے آٹے کی بوریوں میں نہایت خطرناک نشہ آور گولیوں کی موجودگی کی خبر ایک ایسا سنگین واقعہ ہے جو تمام اخلاقی اور انسانی اقدار کو روندنے کے مترادف ہے۔
یہ واقعہ انسانی امداد کے کام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بھیانک چہرے کو دوبارہ بے نقاب کرتا ہے جہاں امداد کا مقصد انسانی جانیں بچانا نہیں بلکہ عام شہریوں کے خلاف ایک نیا ہتھیار بنانا ہے۔ یہ واقعہ جس کی تصدیق عینی شاہدین کی گواہیوں اور زندہ ثبوتوں سے ہوئی ہے، محض ایک اتفاق یا ’لاجسٹک غلطی‘ قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا طرزِ عمل جو فلسطینی معاشرے کے سماجی تانے بانے کو جان بوجھ کر اس وقت نشانہ بنا رہا ہے جب وہ صحت، نفسیات اور سماجی طور پر بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آٹے کی بوریوں کے اندر ’اوکسی کوڈون‘ جیسی انتہائی خطرناک دوا کا انکشاف ہوا ہے جو کہ مہلک 80 ملی گرام کی مقدار میں موجود ہے۔ اس کو ایک دوہرا جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانوں کو آہستہ زہر دے کر مارنے کی ایک کوشش ہے بلکہ پورے فلسطینی معاشرے کے اجتماعی جسم کو کمزور کرنے، نشے کو پھیلانے، ذہنی سکون اور نفسیاتی توازن کو تباہ کرنے کی بھی ایک منظم سازش ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب معاشرہ پہلے ہی جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ صحت کا نظام تباہ ہو چکا ہے، نگرانی اور کنٹرول کے ادارے مفلوج ہیں اور لوگ اپنی روزمرہ کی خوراک کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان نشہ آور اشیا کا ’امداد‘ کی آڑ میں داخل ہونا نفسیاتی اور سماجی نسل کشی کی سب سے خطرناک شکل بن چکا ہے۔
اسرائیل پر ماضی میں بھی خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں، لیکن اب فلسطینی آوازیں یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ ’امداد‘ دراصل آٹے میں لپٹے نشہ آور بم ہیں جہاں موت خاموشی سے آتی ہے؛ نہ بمباری سے بلکہ نشے سے، شعور کے زوال سے اور آہستہ آہستہ صحت کے خاتمے سے۔یہ صرف جانوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ایک منظم کوشش ہے فلسطینیوں کی اجتماعی ارادے کو توڑنے کی، اُن کے حوصلے، مزاحمت اور صبر کو مفلوج کرنے کی تاکہ ایک مکمل اخلاقی و نفسیاتی زوال کی کیفیت پیدا کی جا سکے۔