رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
سات اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل نے غزہ میں جب جارحیت کی ابتدا کی تھی اور کارپیٹ بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا، اب اہل غزہ کو دوبارہ اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
پیر کی رات شدید گولہ باری اور آگ برساتے حملوں نے نہ صرف گھروں کو نشانہ بنایا بلکہ ان پناہ گاہوں کو بھی تباہ کر دیا جہاں ہزاروں بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات غزہ اور اس کے شمالی علاقوں میں قیامت ٹوٹ پڑی، نہ نیند نصیب ہوئی، نہ سکون۔ گزشتہ بیس ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت ایک مکمل نسل کشی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر موت اور تباہی کے مناظر دہرائے جا رہے ہیں جو صرف عمارتوں کو نہیں بلکہ انسانوں کے دل و دماغ تک کو کھنڈرات میں بدل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینی صارفین کی بڑی تعداد نے غزہ میں ہونے والی تازہ تباہی پر شدید دکھ اور غصے کا اظہار کیا۔ تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ مناظر انہیں جنگ کے ابتدائی دنوں کی یاد دلاتے ہیں، خاص طور پر غزہ شہر اور شمالی علاقے ایک بار پھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ رات بھر مسلسل بمباری جاری رہی جس میں گھروں کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی قائم کردہ پناہ گاہیں بھی نشانے پر رہیں۔ شہریوں نے بتایا کہ یہ جنگ کے آغاز سے اب تک کی سب سے شدید بمباری تھی۔ اسرائیلی افواج زمین، سمندر اور فضا سے مہلک بم برسا رہی ہیں، جن سے ہر طرف تباہی کا منظر ہے۔ متعدد عینی شاہدین نے بتایا کہ ’موت کے مناظر رکنے کا نام نہیں لے رہے، ہر طرف لاشیں، چیخیں اور اندھیرے میں بھاگتے لوگ ہیں‘۔ ایک شہری نے لکھا: بمباری رکنے کا نام نہیں لے رہی جبکہ دنیا میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن یہاں امن نہیں صرف موت ہے‘۔ ایک اور نے کہا: غزہ کی رات جہنم جیسی ہے۔ ہر طرف آگ اور بارود کا طوفان۔ زمین کانپتی ہے، آسمان آگ برساتا ہے‘۔
سب سے المناک بات یہ رہی کہ صرف تین گھنٹوں میں اسرائیلی حملوں نے تین اسکولوں کو نشانہ بنایا جنہیں پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ ان حملوں میں درجنوں شہید اور زخمی ہو گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ پناہ گاہیں اب اجتماعی قبریں بن چکی ہیں، دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ غزہ اور شمالی علاقوں میں بڑی پناہ گاہوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں اور صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 4 مراکز شدید حملوں کی زد میں آ چکے ہیں، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک اور شہری نے کہا:’پناہ گاہیں قبریں بن گئیں، خیمے قبریں بن گئے اور امدادی مراکز موت کے گڑھے۔‘
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے درمیان بارہ دن تک جاری رہنے والی خوفناک جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا اس پیش رفت سے غزہ میں جاری نسل کشی کا سلسلہ بھی تھم سکے گا؟ غزہ کے نہتے عوام بیس ماہ سے قابض اسرائیل کے ہاتھوں بدترین درندگی، قتل عام اور انسانی تباہی کا سامنا کررہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے قابض اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کی حکومت جس کی قیادت نیتن یاہو کر رہا ہے کی سیاسی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران پر حملے کو بڑا کارنامہ بناکر پیش کیا۔
امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری مراکز ’ فردو، اصفہان اور نطنز‘ پر بمباری نے نیتن یاھو کو وقتی سیاسی تقویت دی تاکہ غزہ میں اس کی ناکامیوں کا داغ دھویا جا سکے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاہو اس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ غزہ میں اس کی فوج فلسطینی مزاحمت کے ہاتھوں بار بار شکست کھا رہی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا نام ایران پر کامیابی کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی طرف جانے کا راستہ نکال سکے۔ سیاسی مبصر ڈاکٹر ایاد القرا کا کہنا ہے کہ ایران اور قابض اسرائیل کے درمیان جنگ بندی غزہ کی صورتحال میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
ان کے مطابق نیتن یاہو جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب ہے، اس وقت اپنے سیاسی وجود کو بچانے کی کوشش میں ہے اور امریکا کی پشت پناہی سے وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر القرا کے مطابق قابض اسرائیلی سیکورٹی ادارے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ غزہ میں تمام عسکری آپشنز ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ نہ تو قیدی واپس آئے اور نہ ہی مزاحمت ختم ہوئی۔ ڈاکٹر القرا نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل پر عالمی دباو بڑھتا جارہا ہے۔ جنگی جرائم کے الزامات اور غزہ میں جاری درندگی نے دنیا کی توجہ پھر سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی طرف مبذول کردی ہے۔ امریکا بھی سمجھنے لگا ہے کہ یہ جنگ اس کے مفادات اور اخلاقی تشخص کے لیے نقصان دہ ہے جس سے جنگ بندی کی امید بڑھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ قابض اسرائیل جلد ہی کوئی جزوی یا مکمل معاہدہ کرے، خاص طور پر اگر اس میں قیدیوں کا تبادلہ اور محاصرے میں نرمی شامل ہو، تاکہ سیاسی طور پر محفوظ راستہ اختیار کیا جا سکے۔ ان کے بقول اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اپنی طرف سے ہر ممکن لچک دکھائی ہے، مگر امریکا اور قابض اسرائیل کی جانب سے تاحال جنگ بند کرنے کا کوئی واضح ارادہ نہیں دکھائی دیتا۔
تاہم اسرائیلی امور کے ماہر عاہد فروانہ کی رائے مختلف ہے۔ ان کے مطابق نیتن یاہو کسی معاہدے سے قبل غزہ میں شدت پسند کارروائیاں تیز کرے گا، کیونکہ جنگ کا تسلسل ہی اس کی حکومت کی بقا کی ضمانت ہے۔ فروانہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ نیتن یاہو اس موقعے کو حماس پر دباو بڑھانے کے لیے استعمال کرے گا، تاکہ وہ اپنے مطالبات میں نرمی کرے اور جنگ بندی یا اسرائیلی فوج کے انخلا جیسے شرائط سے پیچھے ہٹے۔ ان کے مطابق نیتن یاھو اس وقت انتخابی سیاست میں وقت کا حساب لگا رہا ہے اور جنگ کو اپنی سیاسی کامیابی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ فروانہ نے کہا کہ اگرچہ نیتن یاہو نے ایران کے خلاف امریکی دباو پر جنگ بندی کی، مگر یہ اقدام اس لیے کیا گیا کہ ایرانی میزائلوں کا اثر اسرائیلی سرزمین پر پڑ رہا تھا۔ غزہ اور لبنان کے محاذ پر ایسی صورتحال درپیش نہیں۔ فروانہ کے مطابق مندرجہ ذیل عوامل نیتن یاہو کو جنگ بندی پر مجبور کر سکتے ہیں:
٭ ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی دباو جو خود کو عالمی امن کا علمبردار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔٭اسرائیلی اپوزیشن کا بڑھتا ہوا دباو جو چاہتی ہے کہ ایران کی طرز پر حماس سے بھی معاہدہ ہو۔ ٭حماس کا نرمی سے کام لینا تاکہ غزہ کی صورتحال مزید بدتر نہ ہو۔ ٭عالمی اور علاقائی دباو کی بنیاد پر جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے کی کوشش۔
فروانہ کا ماننا ہے کہ اگر یہ عوامل جلد سامنے آئے تو غزہ میں جاری نسل کشی رکنے کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔قابض اسرائیل کے تین وزرا نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائیاں ناکام ہو چکی ہیں اور کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ قابض وزیراعظم نیتن یاہو اس وقت امریکا کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے مرحلہ وار معاہدہ منصوبے پر غور کر رہا ہے۔ حماس نے واضح کیا ہے کہ نیتن یاھو اور اس کی نسل پرست حکومت غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی مکمل ذمہ دار ہے۔ قابض اسرائیل کی تمام تر کوششیں فلسطینیوں کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہی ہیں اور القسام بریگیڈز سمیت دیگر مزاحمتی گروہوں کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلسطینی مزاحمت نہ صرف باقی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ منظم ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج کے خلاف جاری مزاحمتی کارروائیاں دشمن کے عزائم کو پاش پاش کر رہی ہیں۔ حماس کے سیاسی دفتر کے میڈیا مشیر طاہر نونو نے واضح کیا کہ جنگ بندی کے لیے ابھی تک قابض اسرائیل کی طرف سے کوئی سنجیدہ اشارہ نہیں ملا۔ ان کے مطابق حماس صرف اس معاہدے کو قبول کرے گی جس میں یہ چار نکات شامل ہوں: ٭مکمل جنگ بندی، ٭قابض اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا،٭ غزہ کی تعمیر نو اور قیدیوں کا تبادلہ۔ نونو نے کہا کہ امریکا اور ٹرمپ اگر چاہیں تو نیتن یاہو کو جنگ بندی پر مجبور کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے صرف بیانات نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
