سرکاری ملازمین کا احتجاج، رونا دھونا اور دھرنا بھی رنگ نہیں لا سکا۔ زمین گو اپنی جگہ سے جنبد کر سکتی ہے مگر سرکار گل محمد بنی ہوئی ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو سرکاری ملازمین کو تہہ تیغ ہی کر ڈالے۔
عام انتخابات کے موقع پر حکمران اتحاد کے رہنماؤں نے عوام اور سرکاری ملازمین کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ تمام باغ خزاں گزیدہ ہو چکے ہیں۔ دو سال قبل مسلم لیگ ن نے ایک نعرے کو بیانیہ بنایا تھا کہ
”میاں جدوں آوے دا-لگ پتا جاوے دا”
واقعی عوام کو لگ پتا گیا ہے۔ پنجاب میں عوام سے صحت کارڈ کی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ عوام کو مسلم لیگ ن نے بہت سے سہانے سپنے دکھائے تھے جن میں سے ایک سپنا یہ بھی تھا کہ دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والا صارف جب بل جمع کروانے جائے گا تو اسے بتایا جائے گا کہ آپ کی حکومت آپ کا بل جمع کروا چکی ہے۔
یادش بخیر انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کے جلسوں میں ان کا ایک ترانہ بار بار چلایا جاتا تھا۔ ”یہ ملک بچا لو نواز شریف” اور پھر میاں نواز شریف اپنی سابقہ فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام کو خوابوں کی نگری میں لے جاتے تھے جہاں امن، سکون اور خوش حالی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ مستقبل کے لیے انہوں نے بہت سے دعوے کیے، بڑے وعدے کیے لیکن اپنے بھائی کو وزیرِ اعظم اور بیٹی کو وزیرِ اعلی بنوانے کے بعد میاں نواز شریف منظر سے یوں غائب ہو چکے ہیں جیسے وہ یہاں آئے ہی نہ ہوں۔ سرکاری ملازمین کو کند چھری کے ساتھ ذبح کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حیرت ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں معمولی سا اضافہ ہونے پر چیخ اٹھنے والا آئی ایم ایف ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں 145فیصد اور اسپیکر و چیئرمین سینٹ کی تنخواہ میں 600فیصد اضافے پر کیوں خاموش رہا؟ مہنگائی پر قابو پانے کی دعویدار حکومت کے پاس اتنے بھاری بھرکم اضافے کا کیا کوئی جواز ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ مہنگائی میں کمی کا دعوی ہی درست نہیں ہے۔ درحقیقت مہنگائی میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا ہے اور اسی تناسب سے برہمن طبقہ نے اپنی تنخواہ بڑھا لی ہے۔ رہے سرکاری ملازمین اور سرکاری پنشنرز تو یہ شودر طبقہ ہے جس کے ذمہ مخدوم برہمنوں کی خدمت ہے۔ حکومت اس طبقے کو اتنا ہی دے گی جس سے وہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ کر ان کی خدمت کے فرائض سرانجام دے سکے۔
وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل میں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری دکھائی ہے۔ پنشنرز کی بیوگان کے ساتھ اتنے بڑے ظلم کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا مگر ہماری اتحادی حکومت نے بے حِسی کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے سرکاری پنشنر خاوند کی بیوہ کو دس سال بعد بھیک مانگنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
میرا ایک سابق ٹیچر دوست دو ہفتے قبل انتقال کر گیا ہے۔ وہ قریباً 26000روپے پنشن لے رہا تھا۔ کچھ چھوٹے موٹے کام کر کے گھریلو اخراجات پورے کر رہا تھا۔ اس وقت اس کی بیوہ کی عمر صرف 38سال ہے۔ چار بیٹیاں ہیں جو زیرِ تعلیم ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وہ بے چاری بیٹیوں کو آگے کس طرح پڑھا پائے گی۔ ان کی شادیوں کے اخراجات کس طرح پورے کرے گی اور سب سے اہم بات یہ کہ صرف 48سال کی عمر میں جب حکومت اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ پنشن بند کر دے گی تو وہ کس طرح گزر بسر کرے گی؟
گئے دنوں میں ایک بلاول بھٹو زرداری ہوا کرتے تھے جنہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی مہنگائی کے خلاف کراچی تا اسلام آباد مشہورِ زمانہ لانگ مارچ کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے 300یونٹ بجلی فی گھر مفت دینے کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن کے بعد بہت سے آئینی عہدے سمیٹ کر انہوں نے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
ان کی پارٹی نے وفاقی بجٹ پر بڑھکیں ماریں کہ اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشنرز کی پنشن میں 50فیصد اضافہ نہ کیا گیا تو وہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ جب بجٹ کی منظوری کا وقت آیا تو پیپلز پارٹی حکومتی اراکین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ سنا ہے اب بلاول بھٹو زرداری مقتدرہ کی خواہش کے احترام میں پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا قلم دان ان کا منتظر ہے۔ ان کے چند ایم این ایز کی گاڑیوں پر بھی جھنڈا لگ جائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ رہے عوام، تو وہ جائیں بھاڑ میں۔