ایران اسرائیل جنگ کون جیتا کون ہارا؟

کیا ایران اسرائیل بارہ روزہ جنگ کا اختتام ہو گیا یا شکست اپنے نام لکھوانے کی بجائے امریکا جنگ بندی کے نام پر خود کو بچانے میں کامیاب ہوا؟ اس جنگ بندی کے بعد متعدد سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا ایران نے اپنا جوہری پروگرام ملتوی کر دیا؟ کیا غزہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام رک گیا؟ کیا اسرائیل اور بھارت نے گریٹر اسرائیل اور اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے؟ جبکہ ایران اسرائیل جنگ میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون جیتا کون ہارا؟

اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے دو مقاصد تھے، ایک ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ اور دوسرا وہاں حکومت کی تبدیلی مگر امریکا اور اسرائیل کو منہ کی کھانا پڑی۔ جنگ بندی کیسے ہوئی کیوں کر ہوئی اور امریکا کو کس کس کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے؟ جب ایران نے امریکی ناجائز اولاد کو پھینٹی لگاتے ہوئے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، تل ابیب ملبے کا ڈھیر بن گیا، بن گوریان ائیر پورٹ، حیفہ آئل ریفائنری اور گلیلوٹ ملٹری انٹیلی جنس کمپلیکس پر میزائل برسنے لگے، شمالی اور جنوبی اسرائیل کے شہروں میں سائرن کی آوازیں سن کر دہشت زدہ شہری تہہ خانوں میں جان بچانے کیلئے چھپنے لگے، اسرائیلی دفاعی نظام درہم برہم ہو گیا اور آئرن ڈوم ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے سامنے بے بس نظر آیا، موساد کے ہیڈ کوارٹر سمیت اہم تنصیبات کو اڑا دیا گیا، تب نیتن یاہو کو سمجھ میں آیا کہ ایران کو کمزور سمجھ کر بڑی غلطی کی اور جب اسرائیلی چیخیں امریکا تک پہنچیں تو امریکا نے قطر اور سعودیہ سے رابطہ کیا۔ امریکا پر یہودی لابی کا اتنا دباو تھا کہ 1979کے بعد امریکا نے براہِ راست ایران پر حملہ کیا کیونکہ اسرائیل ایرانی حملوں کی تاب نہیں لا پا رہا تھا۔ شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایران کے جوابی حملے اتنے شدید اور تباہ کن ہوں گے۔

یوں تو ہر امریکی صدر اسرائیل کی اطاعت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے لیکن ٹرمپ نے جس طرح صہیونی ریاست کی خوشنودی کیلئے بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی دھجیاں اڑائیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں ٹرمپ نے مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) منتقل کر دیا تھا، شام کی گولان کی پہاڑیوں پر صہیونی ناجائز تسلط کو بھی جائز قرار دے دیا اور ایران کے ساتھ 2015میں اوباما کے دور میں کیے گئے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا۔ یہ تمام اقدامات سراسر ناجائز اور بین الاقوامی قوانین کے منافی تھے۔ اعلان کیا گیا کہ امریکا اسرائیل کی جانب سے جنگ میں براہِ راست ملوث ہو گا یا نہیں اس بات کا فیصلہ ٹرمپ اگلے دو ہفتوں میں کریں گے مگر دو دن بعد ہی امریکا براہِ راست جنگ میں کود پڑا اور ٹرمپ نے ساری دنیا کو فخر سے بتایا کہ امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل اور امریکا وعدہ شکن ہیں، ٹرمپ کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی چار ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر سے عرصے میں وہ بار بار اپنے بیانات سے پلٹے اور پالیسی فیصلے بدل چکے ہیں۔ اسی لیے ایران کے جوہری مراکز پر بمباری کرکے ٹرمپ نے بہت بڑا نظریاتی دھوکا کیا لیکن ایران نے دوحہ کے امریکی ائیر بیس پر میزائل داغ کر یہ اعلان کیا کہ واشنگٹن کی مجرمانہ جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت تہران میں ہے جبکہ ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کا صرف عندیہ دیا اور عالمی منڈی کانپ گئی۔

نیتن یاہو اپنا اقتدار بچانے کیلئے کب تک غزہ پر ظلم ڈھاتا رہتا؟ اس لیے اس نے پونے دو سال جاری رہنے والی غزہ جنگ کو چھوڑ کر نیا محاذ کھول دیا مگر یہ داو الٹا پڑ گیا۔ ایران کے جوابی حملوں سے پریشان نیتن یاہو نے ٹرمپ سے التجا کی۔ ٹرمپ کا منصوبہ یہ رہا ہو کہ ادھر حملے کریں گے اور ادھر جنگ بندی کا اعلان کر دیں گے کیونکہ جنگ کو بڑھانا ان کے مفاد میں نہیں تھا مگر ایران نے ان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے قطر میں امریکی ایئر بیس پر حملہ کر دیا جس نے واشنگٹن کے اوسان خطا کر دیے۔ امریکا نے دہائیوں سے مڈل ایسٹ کو اپنا اکھاڑا بنا رکھا ہے۔ مشرق وسطی میں 19امریکی فوجی اڈے قائم ہیں جن میں تقریباً 40سے 50ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں ان میں سے آٹھ مستقل فوجی اڈے بحرین مصر عراق اردن کویت قطر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ قطر کی العدید ایئر بیس پر مشرق وسطی میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ 1996 میں قائم کیا گیا یہاں تقریباً دس ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ یہ اڈا امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے اور عراق شام اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا کلیدی مرکز رہا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل پریشان ہے کہ اس کا ایئر ڈیفنس سسٹم ناکام کیسے ہو گیا؟ اس کے آئرن ڈوم اور دیگر حفاظتی تدابیر کا کیا ہوا؟ ایک آئرن ڈوم سسٹم ہی نہیں جو اسرائیل کے فضائی دفاع کیلئے قائم کیا گیا امریکی تھاڈ بھی ہے جو کم درمیانی اور طویل مسافت کے بیلسٹک میزائلوں کے خطرہ کو بھانپتا ہے اور ان کے حملوں کو ناکام بناتا ہے۔ اسی طرح ایئر ٹو ایئر ڈیفنس سسٹم ڈیوڈز سلنگ ایرو۔2 اور ایرو۔3 سسٹم جو غیرروایتی جنگی اسلحہ کو اسرائیل کی جانب آنے سے روکنے کیلئے بنایا گیا تھا اس کے باوجود اسرائیل ایران کے سامنے زیر ہو گیا۔ حالانکہ اسرائیل نے ابتدائی حملوں ہی میں اس کے اعلی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سائنسدانوں کی شہادت بلاشبہ ایران کا بڑا نقصان ہے مگر ایسا نہیں کہ ان کے ساتھ ایران کی صلاحیت دفن ہو گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کو تقریباً 6.46ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور مجموعی جنگی اخراجات 67.5ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ بہت سی کمپنیاں بند ہو چکی سیاحت اور سرمایہ کاری شدید متاثر ہوئی۔ مالی خسارہ 4.9فیصد تک جا پہنچا کیونکہ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کیلئے انٹرسیپٹر میزائلوں کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ یہ یومیہ 200ملین ڈالر ہے۔ ڈیوڈز سلنگ سسٹم جو مختصر اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو مار گراتا ہے کو ایک مرتبہ چلانے کی لاگت تقریبا سات لاکھ ڈالر ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ایرو3 سسٹم کی لاگت تقریبا چار ملین ڈالر ہے۔ ایرو2 سسٹم کی لاگت تقریباً تین ملین ڈالر ہے۔علاوہ ازیں تل ابیب حیفہ اور بیر السبع میں تباہ شدہ عمارتوں کی مرمت پر لاگت کا تخمینہ 400ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس تصادم کے دوران تقریباً 30اسرائیلی مارے گئے۔

سیز فائر کیلئے اگر ایران پابندیاں ہٹانے اور یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی شرط منواتے ہوئے جشن فتح منا رہا ہے تو ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہے کیونکہ اس نے اسرائیل کے اچانک حملے کا جرات اور بہادری سے مقابلہ کیا اور امریکا بہادر کے خلاف جوابی کارروائی کا حوصلہ دکھایا جسے برسوں یاد کیا جائے گا۔ اسرائیل سے جنگ کے دوران جس طرح ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے عوام اور فوج کو متحد رکھا ان کا مورال پست نہیں ہونے دیا، وہ لائق تحسین ہے۔ اس بارہ روزہ جنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا پر اسرائیل اور امریکا کی سازش بے نقاب ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک جوہری پروگرام کے بہانے ایران میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اب اقتدار تبدیل ہوگا تو اسرائیل میں نیتن یاہو کا۔