رپورٹ: علی ہلال
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے اشارے دیے گئے ہیں جس کے بعد اسرائیلی حکومت نے بھی کابینہ اجلاس منعقد کیا۔ اتوار کو اسرائیلی کابینہ اجلاس میں اسرائیلی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے معاملے پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔ چیف آف اسٹاف نے سکیورٹی اجلاس میں کہاہے کہ غزہ عملی طور پر فورسز کے زیر کنٹرول ہے جبکہ صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے اور فی الحال فوجی کارروائی جاری رہنی چاہیے۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فورسز نے جنگی کارروائیوں میں غیرمعمولی تیزی لائی ہے اور قتل وغارت کا سلسلہ دوبارہ تیز کردیا گیا ہے۔ غزہ میں سرکاری میڈیا کے مطابق 27 مئی 2025ء سے شروع ہونے والے نام نہاد ’امریکی اسرائیلی امدادی نظام‘ کے بعد سے اب تک 516 سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں جو امداد کے انتظار میں یا تقسیم کے دوران جمع ہونے کی حالت میں مارے گئے جبکہ 3700 سے زائد افراد مختلف نوعیت کی چوٹوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ان ہولناک مناظر کا تسلسل جاری ہے۔ اسپتالوں کے سامنے لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی جدید تاریخ کے بدترین محاصرے اور اجتماعی بھوک کی مہم کا شکار ہے جیسا کہ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بیان کیا۔
تنظیم نے 12 مارچ 2024ء کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل منظم انداز میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور ایک دستاویزی جنگی جرم ہے۔ مئی 2025ء کے آخر سے ’امریکی اسرائیلی امدادی نظام‘ کو فعال کردیا گیا ہے جو اَب امداد کو ہوائی ذرائع سے نہیں بلکہ زمینی راستوں سے مخصوص مقامات پر تقسیم کرتا ہے۔ ان مقامات میں شارع الرشید چوک، نتساریم کا علاقہ اور مغربی رفح شامل ہیں۔یہ سب مقامات اسرائیلی فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے تحت منتخب کیے گئے ہیں اور انہیں ’انسانی راہداریوں‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ تمام مقامات مکمل طور پر قابض فوج کی فائرنگ کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔
دوسری جانب مزاحمت کاروں نے بھی کارروائیاں تیز کردی ہیں اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران بیس اسرائیلی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ اسرائیلی امور پر نظر رکھنے والے عرب تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ اعلیٰ اسرائیلی حکام آئندہ دنوں کو ’فیصلہ کن‘ قرار دے رہے ہیں اور اسے سنہری موقع قرار دے رہے ہیں جو دوبارہ نہیں آئے گا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے 65 فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ سیاسی قیادت 75 فیصد قبضے کی خواہاں ہے، لیکن یہ یرغمالیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیلی عبرانی چینل کان کے مطابق سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلیوں کے لیے ایک نادر موقع موجود ہے۔ سکیورٹی قیادت چاہتی ہے کہ ایران اور غزہ میں حاصل کامیابی کو اس معاہدے میں تبدیل کیا جائے جس کے ذریعے یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہو۔ اسرائیلی چینل 14 نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ میں امن معاہدوں کی نئی ’روڈمیپ‘ ترتیب دی ہے جس کا عنوان ہے: ”پہلے شام“۔ حالیہ ہفتوں میں دمشق کی نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔
اسرائیل اور واشنگٹن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صدر احمدالشرع امریکی پابندیاں ختم کروانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ امریکی حکام شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اسرائیل ترکی تعلقات کی بہتری سے بھی جوڑنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی سفیر ٹوم باراک (انقرہ میں) نے کہا کہ امریکا اور ترکی کے درمیان F-35 طیاروں کا تنازع جلد حل ہوسکتا ہے‘۔ لبنان کے حوالے سے صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے اور حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے کی کوششوں کی کامیابی پر منحصر ہے، جو تاحال ممکن نہیں ہو سکی مگر امریکا اور بیروت کی حکومت ابھی بھی اس مقصد سے پیچھے نہیں ہٹی۔
عبرانی میڈیا کے مطابق اگلے مرحلے میں سعودی عرب بھی اس عمل میں شامل ہوسکتا ہے مگر وہ جنگِ غزہ کے خاتمے سے پہلے ایسا نہیں کرے گا، کیونکہ مملکت کے اندر عوامی رائے اس کے خلاف ہے۔ اسرائیل کے ذرائع کے مطابق جنگ آئندہ چند مہینوں میں ختم ہوسکتی ہے یا تو فوجی فتح کے ذریعے یا حماس کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں۔ اگر سعودی عرب شامل ہوگیا تو اُمید ہے کہ اس کے بعد انڈونیشیا بھی شامل ہوگا جہاں حال ہی میں مغرب نواز حکومت منتخب ہوئی ہے جس کی قیادت ’پربوو سوبیانتو‘ کررہے ہیں۔
عبرانی میڈیا کے مطابق اس کے بعد سعودی عرب شاید اپنے قریبی اتحادی پاکستان کو بھی قائل کرلے لیکن پاکستان کے حوالے سے صورت حال پیچیدہ ہے، اس کی بڑی وجہ ملک کے اندر موجود مضبوط اسلامی تحریکیں ہیں، نیز اسرائیل اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات جبکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات یا نیم جنگی کیفیت بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل اور واشنگٹن کی تیار کردہ منصوبہ بندی کے مطابق یہ تمام اقدامات اگلے چھ مہینے سے ایک سال کے اندر انجام پانے ہیں۔ یہ ایک بہت پُرامید اور بلند ہدف ہے مگر موجودہ ڈرامائی تبدیلیوں خاص طور پر ایران کے زوال کے بعد اس امکان کو خارج از امکان نہیں سمجھا جاسکتا۔
