ترکی میں حکام نے ایک انگریزی میگزین سے منسلک چار ملازمین کو مبینہ طور پر توہین آمیزخاکہ شائع کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے ’لیمن‘ نامی میگزین میں شائع ہونے والے خاکے کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف، گرافک ڈیزائنر، ادارہ جاتی ڈائریکٹر اور کارٹونسٹ کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں ’لیمن‘ میگزین نے اس بات کی تردید کی کہ اُن کی جانب سے شائع کردہ خاکے میں پیغمبرِ اسلام کو دکھایا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ’(شائع شدہ) کام میں کسی بھی طرح سے پیغمبرِ اسلام کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔‘
استنبول میں پیر کے روز پولیس تعینات کی گئی تھی کیونکہ سینکڑوں افراد نے اس اشاعت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
مظاہرین میگزین کے دفاتر کے باہر جمع ہوئے اور ’دانت کے بدلے دانت، خون کے بدلے خون‘ جیسے نعرے لگائے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
ترکی کے وزیر انصاف کا کہنا ہے کہ چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کی جانب سے ’مذہبی اقدار کی کھلے عام توہین‘ کرنے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
وزیر انصاف کے مطابق ’پیغمبرِ اسلام کا کارٹون یا اُن کی کسی بھی قسم کی تشبیہ نہ صرف ہماری مذہبی اقدار کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ معاشرتی امن کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ میگزین کے صحافیوں کے خلاف بغیر کسی تاخیر کے فوری اور ضروری قانونی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
میگزین کی سیینئر انتظامیہ کے دیگر ارکان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے ہیں۔
میگزین نے اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے قارئین سے معافی مانگی ہے تاہم ادارے کی جانب سے اپنے کام کا دفاع کیا گیا ہے اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارٹون میں کسی بھی طرح پیغمبرِ اسلام کی عکاسی نہیں کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کے کارٹونسٹ (خاکے بنانے والے) اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک مسلمان کی تصویر کشی کرکے مظلوم مسلمانوں کی راستبازی کو پیش کرنا چاہتے تھے اور ان کا ارادہ کبھی بھی مذہبی اقدار کی توہین کرنے کا نہیں تھا۔

