وہ ”بجٹ” جس کاخوف ہر سال کروڑوں پاکستانیوں کی جان جکڑے رکھتا ہے، اس کی آمد ہو گئی ہے۔ اس وقت کروڑوں پاکستانی مہنگائی اور بجلی بلوں سے ادھ موئے ہو رہے ہیں۔ اناپ شناپ ٹیکس ان کی مالی حالت اور پتلی کر رہے ہیں۔ انور مسعود نے بجٹ کی حقیقت انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کی ہے
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے گوشوارے ترے
مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
بہت کام جس نے سنوارے ترے
مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں
حسابی کتابی اشارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے استعارے ترے
تو اربوں کی کھربوں کی باتیں کرے
عدد کون اتنے شمارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے
ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
یونہی چل رہے ہیں ادارے ترے
وزیر خزانہ اورنگزیب کے بقول سب کچھ ایک رات میں ٹھیک نہیں ہوتا، کچھ وقت لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کتنا وقت چاہیے؟ حکمرانوں کی شب ہجراں شب ظلمت میں بدلتی جا رہی ہے۔
عوام کو نویدیں سنائی گئیں کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جو 1824ڈالر ہو گئی ہے اور گزشتہ سال یہ 1662ڈالر تھی۔ ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ پاکستان میں غربت میں کمی ہوئی ہے مگر عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور 44.7فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جبکہ اس سے قبل غربت کی شرح39.8فیصد تھی۔ عالمی بینک کے مطابق 10کروڑ 79لاکھ سے زائد پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔ عالمی بینک نے اس سے قبل بھی اپنی ایک اور رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2024ء میں غربت کی شرح 25.3فیصد رہی جو 2023کے مقابلے میں 7فیصد زائد ہے۔ اس طرح ایک سال میں ایک کروڑ 30لاکھ سے زائد مزید پاکستانی غربت کا شکار ہو ئے مگر حکومت اعداد و شمار چھپا رہی ہے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ ایک جانب غربت میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف امراء کرپشن اور روزمرہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی سے اربوں روپے کا ناجائز منافع کما رہے ہیں جس کی عکاسی فائیو اسٹار ہوٹلز اور مہنگے ریسٹورنٹس سے ہوتی ہے جو امیر طبقے سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں غربت میں اضافے کی وجوہات میں بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم مساوات، پانی، غذائیت، صحت اور تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی شامل ہیں جو عوامی معیار زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ معاشرتی جرائم اور بے روزگاری کا باعث بھی بنتی ہیں جس کے اثرات فرد ہی نہیں پورے معاشرتی ڈھانچے پر پڑتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ برس پاکستانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ 2025ـ26ء کا بجٹ عوامی ہو گا لیکن حالیہ بجٹ بھی عوامی کی بجائے اشرافیہ اور مافیاز کا بجٹ ہے۔ بجٹ دستاویزات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس معیشت کو سنبھالا دینے یا ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ زمینی حقائق نظر انداز کرکے بس بجٹ دستاویزات تیار کرتے جا رہے ہیں، قرض لے کر ملک چلارہے ہیں اور اخراجات کو بڑھا رہے ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے بار بار انتباہ کے باوجود اپنے اخراجات کم نہیں کیے۔ رواں مالی سال میں مقررہ اہداف بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ حکومت تسلیم کر چکی ہے کہ گندم، کپاس، چاول اور گنے جیسی بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے پاس آئندہ مالی سال کے دوران زرعی شعبے کی بہتری کا کوئی پلان نظر نہیں آ تا۔ صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5فیصد مقرر کیا گیا لیکن ان کی کارکردگی منفی 1.5فیصد اور زرعی شعبے کی شرح نمو 0.56فیصد رہی۔ حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ حکمران عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں الجھاکر، دنیا کے سامنے قرض کیلئے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کبھی بجلی تو کبھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کی پیٹھ پر کوڑے برسائے ہیں۔ سرکاری دستاویزات بھی عوام سے دھوکا دہی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ اشرافیہ کو نوازنے کے طریقے نکالے جاتے ہیں مگر غربت اور اپنے اخراجات کم کرنے کے طریقے وضع نہیںکیے جاتے۔ جواز یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پریشر ہے مگر آئی ایم ایف نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اشرافیہ کی ٹیکس رعایت ختم کی جائے۔ رواں مالی سال کے دوران اشرافیہ اور بااثر حلقوں کو 5840ارب سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ گزشتہ برس یہ 3880ارب روپے تھی اور اس وقت بھی حکمران یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اب یہ ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام کا خون نچوڑ کر ٹیکس ہدف پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے’ لیکن دوسری طر ف اشرافیہ کو 5840ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دے رہی ہے۔ 4253ارب 50کروڑ روپے سیلز ٹیکس’ 800ارب 80کروڑ انکم ٹیکس’ 785ارب 90کروڑ کسٹم ڈیوٹی کی مد میں چھوٹ دی گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی مقامی سپلائی پر 1496اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 299ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ اشرافیہ کی ٹیکس چھوٹ کی سزا غریب عوام بھگت ر ہے ہیں۔ حکمران کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک سال میں سات لاکھ 27ہزار سے زائد افراد روزگارکیلئے بیرونِ ملک کیوں چلے گئے؟ قوموں کی ترقی میں تعلیم سرفہرست ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 0.8فیصد خرچ ہو سکا۔ اس وقت 38فیصد بچے سرے سے اسکول ہی نہیں جاتے کیونکہ ان کے ماں باپ فیسیں افورڈ نہیں کر سکتے
بچوں کی فیس، ان کی کتابیں، قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
غربت وافلاس کے باعث ”نانِ جویں” کے لیے کوچہ گردی بچوں کا مقدر بن چکا ہے۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
اسی طرح صحت کے میدان میں بھی اصلاحات کی باتیں ہوئیں لیکن اس شعبے پر جی ڈی پی کا صرف 0.9فیصد خرچ کیا گیا۔ لوگ فٹ پاتھ پر زندگیاں گزار رہے ہیں’ ان کے پاس ایک وقت کے کھانے کے پیسے نہیں’ کوڑے دانوں سے باسی ڈبل روٹی تلاش کر کے کھا رہے ہیں۔
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دینے کی بجائے اشرافیہ کی سپورٹ ہمارے حکمرانوں کا شعار بن چکا ہے۔ ایک طرف ماں بچے کے علاج کے لیے دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے اور دوسری جانب اشرافیہ کا اپنے عالیشان محلات میں غربت کا مذاق اڑا رہی ہے۔ پاکستان میں روز افزوں غربت، معاشی ناہمواری اور بے روزگاری آتش فشاں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اگر اس پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو یہ آتش فشاں پھٹا تو اس کی زد میں امیر طبقہ بھی آئے گا۔
ہِل جائیں گے اک بار تو عرشوں کے در و بام
یہ خاک نشین لوگ جو بولیں گے کسی دن