امریکی ہٹ دھرمی برقرار، غزہ جنگ بندی کی قرارداد ناکام بنادی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ کی شب غزہ سے متعلق ایک اہم قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی، جب امریکا نے اس کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کیا۔
پیش کی گئی قرارداد میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار لاکھوں فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تھا۔
امریکا نے قرارداد کے خلاف ویٹو استعمال کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس میں 7 اکتوبر 2023ء کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت شامل نہیں اور نہ ہی اس میں حماس کو غیرمسلح کرنے اور غزہ سے اس کے انخلا کی شق شامل کی گئی، جو واشنگٹن کے بنیادی مطالبات ہیں۔
سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد میں غزہ کے انسانی بحران کو “تباہ کن” قرار دیا گیا تھا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 22 لاکھ فلسطینیوں پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے تاکہ امداد کی آزادانہ ترسیل ممکن ہو سکے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم 9 ووٹ اور مستقل ارکان امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کی طرف سے ویٹو نہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔
امریکی نیوز ویب سائٹ “اکسیس” کے مطابق دو اسرائیلی حکام نے انکشاف کیا کہ امریکا نے ووٹنگ سے پہلے ہی اسرائیل کو ویٹو کے ارادے سے آگاہ کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سفارتی ذرائع نے بھی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل امکان ظاہر کیا تھا کہ واشنگٹن ویٹو کا استعمال کرے گا۔
یہ قرارداد سلامتی کونسل کے ان 10 غیرمستقل ارکان نے تیار کی تھی، جن کی مدتِ رکنیت دو سال ہوتی ہے۔
قرارداد میں 7 اکتوبر کے حملے کے بعد حماس اور دیگر گروپوں کے قبضے میں موجود تمام مغویوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

نیتن یاہو کی حکومت کو خطرات لاحق، اہم اتحادی نے ساتھ چھوڑ دیا

قرارداد میں غزہ کے حالات کو “المناک” قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انسانی امداد پر عائد تمام رکاوٹیں فوری اور غیر مشروط طور پر ختم کی جائیں اور اقوام متحدہ و اس کے شراکت داروں کو بلارکاوٹ، محفوظ اور وسیع پیمانے پر امداد کی تقسیم کی اجازت دی جائے۔
یاد رہے کہ یہ ووٹنگ ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب غزہ میں امدادی مراکز کو اسرائیلی فوجی علاقوں میں منتقل کر کے ان کی نگرانی کی جارہی ہے، جسے امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔
ان دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ یہ اقدام حماس کی مداخلت سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اس نئے نظام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھوک کے بڑھتے ہوئے بحران کا حل نہیں بلکہ اسرائیل کو امداد کو ہتھیار بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ اقدام انسانی اصولوں جیسے غیر جانب داری، آزادی اور خود مختاری کے بھی منافی ہے۔
قرارداد میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ تمام بنیادی انسانی خدمات فوری طور پر بحال کی جائیں اور یہ سب کچھ بین الاقوامی انسانی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہو۔