اسرائیل کی ایک سخت گیر مذہبی جماعت نے بدھ کے روز ملک میں فوجی سروس لازمی بنانے کے منصوبے کے خلاف بطور احتجاج حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی حکومت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق متحدہ “یہودیہ التوراہ” نامی اتحاد سے تعلق رکھنے والے سرکردہ مذہبی رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ اس مجوزہ قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں جس کے تحت مذہبی یہودی مردوں کو بھی اسرائیلی فوج میں جبری بھرتی کیا جائے گا۔
اسی مخالفت کی بنیاد پر انہوں نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ جماعت جو کہ انتہائی مذہبی حریدی یہودی برادری کی نمائندہ ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں 120 میں سے سات نشستوں پر فائز ہے۔
نیتن یاہو کی موجودہ دائیں بازو کی مذہبی حکومت کے پاس اس وقت 68 نشستیں ہیں۔ “یہودیہ التوراۃ” کے انخلا کے بعد حکومتی اکثریت خطرے میں پڑسکتی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے مزید حریدی افراد کو بھرتی کے نوٹس بھیجے جانے کے بعد مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کا پھرامدادی مرکز پر حملہ،بھوک سے نڈھال58فلسطینی شہید
دوسری جانب متعدد اپوزیشن جماعتیں آئندہ ہفتے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ تازہ عوامی سروے کے مطابق اگر انتخابات اکتوبر میں ہوئے تو بن یامین نیتن یاہو ان میں شکست کھا سکتے ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ سخت مذہبی یہودی مردوں کو دہائیوں سے لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل تھا مگر گزشتہ سال یہ استثنیٰ ختم ہوگیا۔
موجودہ حکومت اس مخصوص رعایت کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی نیا قانون بنانے میں ناکام رہی ہے۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 2024ء کی گرمیوں میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ اب سخت مذہبی یہودیوں کو بھی فوجی خدمات انجام دینا ہوں گی۔
زیادہ تر حریدی یہودیوں کا ماننا ہے کہ فوجی سروس ان کے مذہبی طرزِ زندگی کے لیے خطرہ ہے، خصوصاً اس وجہ سے کہ اسرائیلی فوج میں مرد اور خواتین ایک ساتھ خدمات انجام دیتے ہیں۔