غزہ میں اسرائیل کا پھرامدادی مرکز پر حملہ،بھوک سے نڈھال58فلسطینی شہید

غزہ/نیویارک/تل ابیب/اوسلو/میڈرڈ/عمان : غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے تازہ ترین دور میں امدادی مرکز کے قریب حملے میں 58 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں اکثریت خوراک کے لیے قطار میں کھڑے شہریوں کی تھی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ خان یونس، رفح، دیر البلاح، اور غزہ شہر میں متعدد علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جن کے نتیجے میں لاشیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کی گئیں۔

خان یونس کے ناصر ہسپتال میں 35 لاشیں لائی گئیں جن میں سے 27 افراد کو رفح میں امدادی مرکز کے قریب گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ الشفا ہسپتال کو 14، الاقصیٰ شہدا ہسپتال کو 6 اور العربی اہلی ہسپتال کو 3 لاشیں موصول ہوئیں۔

طبی عملے کے مطابق جورا کے علاقے میں ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں کم از کم 4 افراد شہید ہوئے جب کہ دیر البلاح میں ایک اور حملے میں 3 افراد جان سے گئے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ترجمان جیریمی لارنس نے غزہ میں شہریوں پر حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو خوراک سے روکنا بھی جنگی جنون کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ عمل ممکنہ طور پر جنگی جرم ہے۔سیو دی چلڈرن کی غزہ میں امدادی کارروائیوں کی ڈائریکٹر جارجیا ٹیسی نے کہا کہ ہمارے گودام خالی ہیں، ہزاروں ٹرک سرحد پر پھنسے ہیں، ہم بچوں کو صرف بچانے کی کوشش کر رہے ہیں’ میں نے 20 سال میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام شاید جان بوجھ کر ناکام بنایا گیا ہے۔ غزہ کے بچے وہ سب نہیں بھلا سکتے جو ان کی آنکھوں نے دیکھ لیا ہے۔دوسری جانببین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی اور مقامی دفاعی اداروں نے بھی امدادی مراکز پر حملوں میں شہادتوں کی تصدیق کی ہے۔

اس واقعے نے عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کی آزاد اور فوری تحقیقات کا مطالبہ دہرایا ہے۔

ان کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ شہری صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیکریٹری جنرل اس واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کے احتساب پر زور دے رہے ہیں۔ادھر وائٹ ہاس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ امریکی انتظامیہ اس واقعے سے آگاہ ہے اور دستیاب معلومات کی صداقت کا جائزہ لے رہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ حماس کی فراہم کردہ معلومات پر ہمیں مکمل بھروسہ نہیں۔دریں اثناء اسرائیلی فضائیہ نے بدھ کی صبح جنوبی شام پر فضائی حملے کیے۔ یہ کارروائی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر داغے گئے دو راکٹوں کے جواب میں کی گئی۔

عرب ٹی وی نے بتایاکہ شامی ذرائع کے مطابق یہ حملے درعا، قنیطرہ اور سعسع کے نواحی علاقوں میں مختلف مقامات پر کیے گئے۔اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ لڑاکا طیاروں کے ذریعے شام کی حکومت سے وابستہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جو جنوبی شام میں واقع ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق رات نو بج کر 36 منٹ پر حاسبین اور رمات ماغشیمیم میں سائرن بجنے کے بعد شام سے داغے گئے دو راکٹ اسرائیل میں داخل ہوئے مگر غیر آباد علاقوں میں جا گرے۔

چند لمحوں بعد اسرائیلی فوجی ریڈیو نے اطلاع دی کہ فوج نے شامی علاقوں پر حملہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنگی طیاروں نے شامی فضائی حدود میں تیز رفتاری سے پرواز کی۔

اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے شامی صدر احمد الشرع کو ان حملوں کا براہِ راست ذمے دار ٹھہراتے ہوئے بیان میں کہا ہم شام کے صدر کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی حملے یا خطرے کا براہِ راست ذمے دار سمجھتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ جلد ایک جامع ردِ عمل دیا جائے گا۔علاوہ ازیںناروے کے جاری کردہ فنڈز کے استعمال کے اخلاقی پہلو کا جائزہ لینے والے ادارے نے اسرائیلی بنکوں کے ساتھ ناروے کے معاملات پر از سر نو غور کرنے کا فیصلہ لیا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ان فنڈز کا استعمال اخلاقی حدود و قیود اور اخلاقی اقدار کے تحت ہو رہا ہے یا نہیں۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اس سلسلے میں ناروے کا ‘واچ ڈاگ’ کا ادارہ یہ بھی دیکھے گا کہ اسرائیلی بنک ناروے کے فراہم کردہ فنڈز کو مقبوضہ مغربی کنارے میں استعمال کر رہے ہیں یا نہیں۔

اندازہ ہے کہ ان کا یہ جائزہ 500 ملین ڈالر نارویجن فنڈ کے استعمال کے حوالے سے ہوگا۔ایک انٹرویو میں نارویجن اخلاقی مجلس کے سربراہ سوین رچرڈ برینڈ زنارب نے کہا وہ اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اسرائیلی بنک یہودی آبادکاروں کے پیسوں کی کس طرح ضمانت دیتے ہیں جو مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنا گھر بناتے ہیں۔

اس سلسلے میں ابھی تک ہم یہی دیکھ سکے ہیں اور مزید طریقوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اس جائزہ میں کتنا وقت درکار ہوگا۔

نیز انہوں نے بینکوں کے ناموں کا بھی تذکرہ نہیں کیاتاہم صرف یہ معلوم ہو سکا ہے کہ سال 2024ء کے اختتام پر بنک میں اسرائیلی قرض دہندگان کے حصص میں تقریبا ً500 ملین ڈالر موجود تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق یہ حصص ایک سال میں 62 فیصد سے زائد ہیں۔ادھروزارتِ دفاع نے ہسپانوی میڈیا رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ ا سپین ٹینک شکن میزائل نظام کی خریداری منسوخ کر رہا ہے جوا سپین میں اسرائیلی کمپنی کے ایک ذیلی ادارے نے تیار کرنا تھا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اس فیصلے سے 168 سپائیک ایل آر ٹو ٹینک شکن میزائل نظاموں کی خریداری متار ہو گی جس کی مالیت کا تخمینہ 285 ملین یورو ہے۔ مقامی پریس کے مطابق یہ سسٹم پاپ ٹیکنوز نے تیار کرنے تھے جوا سپین میں اسرائیل کے رافیل ایڈوانس ڈیفنس سسٹم کا ذیلی ادارہ ہے۔

ہسپانوی حکومت نے تین اکتوبر 2023ء کو اس منصوبے کی منظوری دی تھی جبکہ اردن کی وزارتِ خارجہ و غیر ملکی امور نے انتہا پسند اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے مسجدِ اقصی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی کو اشتعال انگیز قرار دیا۔

عرب ٹی وی کے مطابق سینکڑوں اسرائیلی آبادکار قدیم شہر کے احاطے میں داخل ہو گئے جو مقبوضہ مشرقی یروشلم کا حصہ ہے۔ وزارت نے آبادکاروں کے رویے کواشتعال انگیز کارروائی قرار دیا جس کا مقصد مسجد میں زمان و مکاں کی نئی تقسیم مسلط کرنا ہے۔

آباد کار اسرائیلی پولیس کی حفاظت میں باقاعدگی سے اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں اور اکثر سرکاری اہلکار اور انتہائی دائیں بازو کے وزرا بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان سفیان القضا نے کہا کہ آباد کاروں کی دراندازی اسرائیلی پولیس کے تحفظ اور سہولت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی اور اسرائیلی حکام سے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک طرزِ عمل روکنے کا مطالبہ کیا۔

قبل ازیںاسرائیل کی ایک سخت گیر مذہبی جماعت نے بدھ کے روز ملک میں فوجی سروس لازمی بنانے کے منصوبے کے خلاف بطور احتجاج حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

متحدہ یہودیہ التوراہ نامی اتحاد سے تعلق رکھنے والے سرکردہ مذہبی رہنمائوں نے کہا کہ وہ اس مجوزہ قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں جس کے تحت مذہبی یہودی مردوں کو بھی اسرائیلی فوج میں جبری بھرتی کیا جائے گا۔

اسی مخالفت کی بنیاد پر انہوں نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔یہ جماعت جو کہ انتہائی مذہبی حریدی یہودی برادری کی نمائندہ ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں 120 میں سے سات نشستوں پر فائز ہے۔

نیتن یاہو کی موجودہ دائیں بازو کی مذہبی حکومت کے پاس اس وقت 68 نشستیں ہیں۔ ”یہودیہ التورا” کے انخلا کے بعد حکومتی اکثریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے مزید حریدی افراد کو بھرتی کے نوٹس بھیجے جانے کے بعد مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب متعدد اپوزیشن جماعتیں آئندہ ہفتے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ تازہ عوامی سروے کے مطابق اگر انتخابات اکتوبر میں ہوئے تو بنجمن نیتن یاہو ان میں شکست کھا سکتے ہیں۔

قابلِ ذکر ہے کہ سخت مذہبی یہودی مردوں کو دہائیوں سے لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل تھا مگر گزشتہ سال یہ استثنیٰ ختم ہوگیا۔ موجودہ حکومت اس مخصوص رعایت کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی نیا قانون بنانے میں ناکام رہی ہے۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 2024ء کی گرمیوں میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ اب سخت مذہبی یہودیوں کو بھی فوجی خدمات انجام دینا ہوں گی۔ زیادہ تر حریدی یہودیوں کا ماننا ہے کہ فوجی سروس ان کے مذہبی طرزِ زندگی کے لیے خطرہ ہے، خصوصاً اس وجہ سے کہ اسرائیلی فوج میں مرد اور خواتین ایک ساتھ خدمات انجام دیتے ہیں۔