SpaceCraft

پانچ دہائیوں بعد زمین کے مدار سے گرا سوویت اسپیس کرافٹ — خلائی سفر کی ناکام مگر یادگار داستان


ماسکو: (ویب ڈیسک)
خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک حیران کن لمحہ اُس وقت سامنے آیا جب سوویت یونین کے دور کا ایک پرانا اسپیس کرافٹ — جو گزشتہ 50 برسوں سے زمین کے گرد مدار میں گردش کر رہا تھا — بالآخر زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہو کر زمین پر آ گرا۔ یورپی خلائی ایجنسی (ESA) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسپیس کرافٹ زمین میں داخل ہوا، تاہم ابھی تک اس کی درست لوکیشن اور حالت کے بارے میں مکمل معلومات سامنے نہیں آ سکیں۔

ناکام مشن کی کہانی

یہ اسپیس کرافٹ “کوسموس 482” کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق سوویت یونین کے اُس خلائی مشن سے تھا جو 1972 میں سیارۂ زہرہ (Venus) کی طرف روانہ کیا گیا تھا۔ تاہم، خلائی سفر کے آغاز ہی میں راکٹ میں فنی خرابی پیدا ہو گئی، جس کے نتیجے میں یہ خلائی جہاز زمین کے مدار سے نکلنے میں ناکام رہا اور ایک ناکام مشن بن کر رہ گیا۔ اگرچہ مشن کا مقصد زہرہ کی سطح پر لینڈر اتارنا تھا، مگر یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔

زمین میں واپسی — دہائیوں بعد

دلچسپ بات یہ ہے کہ کوسموس 482 کے کچھ حصے تو مشن کے ناکام ہونے کے چند سالوں کے اندر ہی زمین پر واپس آ گرے تھے، مگر اس کا سب سے مضبوط اور بھاری حصہ — لینڈر — پانچ دہائیوں تک زمین کے مدار میں گردش کرتا رہا۔ اس لینڈر کو Titanium (ٹائٹینیم) دھات سے تیار کیا گیا تھا، جس کا وزن تقریباً 495 کلوگرام ہے، اور یہ خاص طور پر اس قابل بنایا گیا تھا کہ زہرہ جیسے شدید درجہ حرارت والے ماحول کا سامنا کر سکے۔ اسی مضبوط ساخت نے اسے لمبے عرصے تک خلاء میں قائم رکھا۔

کنٹرول کے بغیر واپسی

یورپی خلائی ایجنسی اور دیگر عالمی خلائی مانیٹرنگ اداروں نے اس اسپیس کرافٹ کے زمین میں دوبارہ داخل ہونے کی تصدیق کی ہے، مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ زمین کے کس حصے میں گرا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کا داخلہ مکمل طور پر بے قابو تھا، اس لیے اس کی درست لوکیشن معلوم کرنا خاصا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ ممکنہ طور پر بحرِ ہند میں گرا ہے، تاہم کوئی ٹھوس شواہد یا تصاویر دستیاب نہیں ہیں۔ روسی ماہرین نے بھی عندیہ دیا ہے کہ یہ لینڈر بحرِ ہند میں ہی گرا ہو سکتا ہے، لیکن اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی۔

خطرہ تھا یا نہیں؟

عوامی خدشات کے برعکس، ماہرین نے اطمینان دلایا ہے کہ اسپیس کرافٹ کے زمین میں داخل ہونے سے کسی انسانی جان یا املاک کو خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ ان کے مطابق اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا کہ اسپیس کرافٹ کا کوئی ملبہ کسی انسان یا بستی سے ٹکرا جاتا۔ لینڈر کا بیشتر حصہ فضا میں داخل ہوتے ہی شدید حرارت کی وجہ سے جل گیا ہوگا، اور جو حصہ بچا، وہ بھی غالباً کسی غیر آباد سمندری علاقے میں جا گرا۔

سائنسدانوں کی دلچسپی

یہ واقعہ صرف ایک تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ خلائی تحقیق میں طویل مدتی اثرات کے ایک منفرد مظہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ اسپیس کرافٹ، جو نصف صدی قبل خلا میں بھیجا گیا تھا، آج بھی سائنسدانوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ اس کے غیر معمولی مواد اور تعمیراتی معیار نے اسے 50 سال تک مدار میں قائم رکھا، جو اس زمانے کے انجینیئرنگ معیار کی بھی گواہی دیتا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر واقعی یہ حصہ بحرِ ہند میں گرا ہے تو امکان ہے کہ صرف وہیل مچھلیاں ہی اسے دیکھ سکیں گی — ایک طنزیہ مگر دلچسپ اشارہ اس حقیقت کی طرف کہ یہ اسپیس کرافٹ دنیا سے خاموشی سے رخصت ہوا، جیسے ایک گم شدہ تاریخ کا ورق آہستگی سے بند ہو گیا ہو۔

نتیجہ

کوسموس 482 کا زمین پر دوبارہ گرنا ایک یاد دہانی ہے کہ خلا میں بھیجے گئے مشن اگرچہ ناکام ہو سکتے ہیں، مگر ان کے اثرات اور باقیات دہائیوں تک ہماری دنیا کے گرد گردش کرتی رہتی ہیں۔ یہ واقعہ خلائی تحقیق کے ماہرین کو مستقبل میں بہتر خلائی منصوبہ بندی اور خلائی ملبے کی نگرانی پر غور کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے، تاکہ آئندہ غیر متوقع خطرات سے بچا جا سکے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پرانے خلائی ملبے کو مانیٹر کرنا آج کے دور میں زیادہ ضروری ہو گیا ہے؟