غزہ میں ریسکیو گاڑیاں بند،طبی ٹیموں پر پابندی،ایندھن ختم، بحران سنگین

غزہ/تل ابیب/صنعائ/نیویارک/ریاض:فلسطینی محکمہ شہری دفاع نے جمعرات کے روز اعلان کیا ہے کہ ایندھن کی شدید قلت کے باعث غزہ کی پٹی میں اس کی 75 فیصد گاڑیاں مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں جس سے ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق محکمہ شہری دفاع کا کہنا ہے کہ غزہ میں نہ صرف ایندھن کی کمی درپیش ہے بلکہ بجلی کے جنریٹرز اور آکسیجن فراہم کرنے والے آلات بھی دستیاب نہیں جس کے باعث ہسپتالوں اور ریسکیو مراکز میں شدید بحران پیدا ہو چکا ہے۔

محکمے نے اس تشویشناک صورتحال کا براہ راست ذمہ دار قابض اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ جاری جنگ، شدید ناکہ بندی اور مسلسل محاصرے کے سبب غزہ کے عوام کی مشکلات کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ اپریل کے آخر میں بھی شہری دفاع نے خبردار کیا تھا کہ جنوبی غزہ میں فائر بریگیڈ، ریسکیو اور ایمبولینس کی گاڑیوں کے لیے مخصوص ایندھن ختم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں 12 میں سے 8 گاڑیاں بند ہو چکی ہیں۔

محکمے نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے فوری اپیل کی کہ وہ انسانی بنیادوں پر حرکت میں آئیں، غزہ کی بند کراسنگ کھلوائیں اور ایندھن سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ انسانی خدمت کے ادارے اپنی خدمات جاری رکھ سکیں۔

دوسری جانب قابض اسرائیلی حکام نے بین الاقوامی طبی عملے کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ وہاں لاکھوں فلسطینیوں کی جانیں بچانے کے لیے فوری طور پر طبی سہولیات اور ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔

مہینوں سے جاری جنگ نے غزہ کے صحت کے نظام کو منظم انداز میں تباہ کر دیا ہے۔بین الاقوامی طبی تنظیم ”ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے جمعرات کو تصدیق کی کہ حالیہ ہفتوں میں قابض اسرائیل نے متعدد غیرملکی طبی ٹیموں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا حالانکہ ان میں سے بعض ٹیمیں غزہ پہنچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

تنظیم کے عہدیدار نے امیڈیاسے گفتگو میں بتایا کہ غزہ میں بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں پلاسٹک سرجری یعنی اعزازی یا جمالیاتی سرجری کی ضرورت ہے، لیکن اب صرف چند پلاسٹک سرجن ہی باقی بچے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خان یونس پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جلنے والے افراد کی تعداد پانچ گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر جب سے اسرائیل نے 18 مارچ سے اپنی نسل کش جنگ دوبارہ شروع کی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ غزہ میں جھلسنے والے مریض شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ دوائیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ کے ہسپتالوں اور کلینکس کے پاس موجود محدود دوا کا ذخیرہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

اسی تناظر میں ”ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کے باعث بچوں میں شدید غذائی قلت کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بحران کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قابض اسرائیل نے خوراک کی رسد کو بند کر رکھا ہے۔اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کے تمام بارڈر کراسنگ بند کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی انسانی صورتِ حال مزید ابتر ہو گئی ہے اور یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ پوری غزہ کی پٹی شدید قحط کا شکار ہو سکتی ہے۔

دریں اثناء قابض اسرائیلی پولیس کی سخت سیکورٹی میں درجنوں صہیونی آبادکاروں نے جمعرات کی صبح مسجد اقصیٰ کے صحنوں پر دھاوا بول دیا اور مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہوئے اشتعال انگیز گشت کیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق کئی صہیونی آبادکار قابض اسرائیلی پولیس کی معیت میں علی الصبح مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں داخل ہوئے اور مقدس مقام کے اندر اشتعال انگیز گشت کرتے رہے۔

علاوہ ازیں فلسطینی حکومتی میڈیا دفتر نے قابض اسرائیل کے اْس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس کے تحت غزہ میں جبری تنہائی کے ایسے کیمپ قائم کیے جانے ہیں جو ہٹلر کے دور کے نازی ”گھیٹوزیا کنسنٹریشن کیمپ” سے مشابہت رکھتے ہیں۔

دفتر نے اس اقدام کو فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کی ایک بھیانک سازش قرار دیا ہے۔مرکز اطلاعات فلسطین کو موصول بیان میں حکومتی میڈیا دفتر نے واضح کیا کہ گزشتہ انیس ماہ سے غزہ مسلسل ایک منظم نسل کشی کی زد میں ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 1 لاکھ 80 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، زخمی یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 70 دنوں سے غزہ کی تمام کراسنگ قابض اسرائیل کی جانب سے بندوق کی نوک پر بند کی گئی ہیں جس کی وجہ سے انسانی بحران شدید تر ہو چکا ہے۔ امدادی سامان اور بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل مکمل طور پر معطل ہے اور 24 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔

دفتر نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل امداد کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ فلسطینی عوام کو فاقہ کشی اور محاصرے کے ذریعے دباؤ میں لایا جا سکے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حکومتی میڈیا دفتر نے دنیا بھر کی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ وہ اپنی انسانی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کریں۔

دفتر نے عرب اور مسلمان ممالک سے فوری عملی اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینیوں کی جانیں بچائی جائیں اور قابض اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کو روکا جائے۔ادھراسرائیلی فوج نے غزہ میں حملے کرتے ہوئے 24 گھنٹوں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 107 فلسطینی شہید کردیے۔

اسرائیلی فوج نے غزہ میں مسجد خالی کرنے کا حکم دے کر قریبی پناہ گزین اسکول پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں 2صحافیوں سمیت 40 فلسطینی شہید ہوگئے۔دیگر حملوں میں67نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اجتماعی قتل عام میں شہدا کی مجموعی تعداد 52,760 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 119,264 فلسطینی شدید زخمی ہوئے ہیں۔غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق ورلڈ سینٹرل کچن کا امدادی سامان ختم ہونے پر غزہ میں کام روکنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔

ورلڈ سینٹرل کچن کا اپنے جاری کردہ بیان میں کہنا تھا کہ امدادی سامان ختم ہونے پر غزہ میں کام روک رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی ختم کیے بغیر غزہ میں امداد نہیں لاسکتے۔ اسرائیل نے غزہ میں ہر قسم کی امداد 2 مارچ سے روک رکھی ہے۔

دوسری جانب جنوبی مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں ایک فلسطینی نوجوان نے قابض اسرائیلی فوجیوں پر گاڑی چڑھا کرایک اسرائیلی فوجی کو زخمی کر دیا جس کے بعد صہیونی فوج نے فائرنگ کر کے نوجوان کو شہید کر دیا۔

عام شہری امور کی فلسطینی اتھارٹی نے وزارت صحت کو مطلع کیا کہ اس کارروائی کے مرتکب نوجوان کی شناخت 20 سالہ عبد الفتاح عاد احمد الحریبات کے نام سے ہوئی جو الخلیل کے قریب واقع مقام پر صہیونی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا۔

واقعے کے بعد قابض اسرائیل کی فوج نے شہید عبد الفتاح کے آبائی گھر پر دھاوا بولا جو جنوبی علاقے دورا میں واقع ہے اور وہاں موجود اہل خانہ کو زدوکوب کیا۔یمنی مسلح افواج نے قابض اسرائیل کے رامون ایئرپورٹ اور مقبوضہ یافا میںاہم تنصیبات پر دو الگ الگ فضائی حملے کیے۔

یہ کارروائیاں غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری اسرائیلی مظالم کے جواب میں کی گئیں۔مرکز اطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے بیان میں یمنی افواج نے کہا کہ انہوں نے بحیرہ احمر میں بھی ایک خصوصی فوجی آپریشن کیا جس میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ”ٹرومان” اور اس کے ساتھ موجود کئی جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔

حملے کے نتیجے میں امریکی فضائیہ کا ایک ایف 18 طیارہ تباہ ہو گیا جبکہ طیارہ بردار جہاز ”ٹرومان” شدید دباؤ کے باعث شمالی بحیرہ احمر کی طرف فرار ہوگیا۔یمنی مسلح افواج نے واضح کیا کہ یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت میں ہیں بلکہ یمن پر امریکی جارحیت کے جواب میں بھی کی جارہی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دشمن نے حملے دوبارہ شروع کیے تو انہیں شدید اور مؤثر جوابی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یمن نے قابض اسرائیل کے لیے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں سمندری نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جبکہ الد ایئرپورٹ پر بھی فضائی نقل و حرکت کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یمنی افواج نے دوٹوک انداز میں کہا کہ غزہ پر حملے اور محاصرہ جاری رہنے تک ان کی جوابی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ادھراقوام متحدہ کی نمائندہ برائے انسانی حقوق فرانسسکا البانیز نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں پر جاری وحشیانہ اسرائیلی جرائم پر مجرمانہ خاموشی برتنا خود بھی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جاری صورتحال نہایت خوفناک ہے جہاں قابض اسرائیل نہ صرف بمباری کر رہا ہے بلکہ بھوک، دوا کی قلت، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

یہ بات انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے صدر دفتر میں ہونے والی اہم گول میز سے خطاب میں کہی۔ یہ تقریب ”غزہ، عالمی نظام کی اخلاقی موت کا انکشاف” کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی جس میں ایمنسٹی کی سالانہ رپورٹ بھی پیش کی گئی جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔

فرانسسکا البانیز نے مزید کہا کہ جو ممالک اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں یا اس کی پشت پناہی کرتے ہیں وہ بھی ان ہولناک جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہاکہ ” فلسطینیوں کے قتل عام پرخاموشی جرم ہے، ہر وہ ریاست، ادارہ یا طاقت جو ان جرائم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی، وہ بھی قانون کے کٹہرے میں لائی جائے گی”۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی دہشت گردی کو مزید برداشت نہ کرے اور فلسطینی عوام کے حق میں عملی اقدامات کرے تاکہ ان کا قتل عام روکا جا سکے۔عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے اور علاقے کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے سے متعلق منصوبے کو واضح طور پر مسترد کیا ہے۔

وزارت خارجہ نے بیان میں اسرائیلی قابض فورسز کی غزہ پٹی اور فلسطینی علاقوں پر جاری جارحیت کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی قراردیا۔وزارت خارجہ کا کہنا تھا مملکت اپنے موقف پر آج بھی قائم ہے جس میں فلسطینی اراضی پر اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کو سختی سے مسترد کیا جاچکا ہے۔سعودی عرب نے زور دیا کہ اسرائیل عالمی قوانین کی پاسداری کرے۔