رپورٹ: علی ہلال
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ خلیج کے موقع پر ایک ایسے فیصلے کا اعلان متوقع ہے جو ایران کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات میں نئی کشیدگی کا سبب بنے گا۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے نے واشنگٹن کے باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کو خوش کرنے کے لیے خلیج کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے خلیج فارسی سے خلیج عربی کا نام دینے کا منصوبہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے خلیج کے لئے خلیج فارس کے بجائے الخلیج العربی یا خلیج العرب کا نام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ایران کے جنوب میں واقع پانے کے اس خلیج کو ایران خلیج فارس کہتاہے جبکہ عرب اسے الخلیج العربی کہتے ہیں۔ خلیج کو سولہویں صدی سے خلیج فارس کا نام دیا جاتاہے تاہم گزشتہ کافی عرصے سے اسے الخلیج العربی کا نام دیا جانے لگا ہے۔ یہ عربوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک اہم متنازع ایشو ہے۔ ایران نے 2012ء میں گوگل کمپنی کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ گوگل اپنے نقشوں میں اس خلیج کو کوئی نام نہیں دے رہا تھا۔ امریکا میں اس وقت صرف ایپل کمپنی کے نقشوں میں خلیج کا نام خلیج فارس ہے، اس کے علاوہ کسی نقشے میں اسے خلیج فارس نہیں کہاجاتا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ خلیج کے موقع پر اس کے نئے نام کا باقاعدہ اعلان متوقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیج کا نام تبدیل کرسکتے ہیں اور اسے امریکا میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بھی کرسکتے ہیں، لیکن اسے دنیا کے دیگر ممالک پر لاگو کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2023ء میں ایرانی فٹ بال ٹیم نے فیفا کے خلاف بھی خلیج 25 کپ کے میچ کے موقع پر بروشرز اور پبلسٹی پبلشنگ میں خلیج عربی کے نام کے استعمال پر شدید احتجاج کیا تھا اور فیفا کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی تھی۔
خلیج فارس یا خلیج عرب کا تنازع صدیوں پرانا ہے۔ یادرہے کہ ایران کے جنوبی سائڈ اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان سلطنت عمان سے شروع ہوکر پانی کا خلیج عراق کے شط العرب تک پہنچا ہے، جس کی لمبائی 964 کلومیٹر ہے جبکہ اس کا رقبہ 2لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ چوڑائی میں یہ 370 کلومیٹر ہے جبکہ آبنائے ہٹ میں تنگ ہوکر اس کی چوڑائی صرف 55 کلومیٹر رہ جاتی ہے۔
عراق کے ایک عرب ادارے کی تحقیق کے مطابق خلیج کو ماضی میں متعدد ناموں کے ساتھ یاد کیاجاتارہاہے۔ عراق پر اشورین اور سومری سمیت متعدد سلطنتوں کا دور گزرا ہے جس میں اس خلیج کو مختلف ناموں کے ساتھ یاد کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم چھٹی صدی قبل مسیح میں فارسی اخمینی سلطنت کے قیام کے وقت اس کا نام خلیج فارس رکھا گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ فرانسیسی میوزیم میں پچیس صدی قدیم دستاویزات میں اس خلیج کو خلیج فارسی کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم ساتویں صدی عیسوی میں ایرانی فارسی اراضی پر عربوں کی آمد کے بعد سے اس کے نام کا معاملہ متنازع ہونے لگا۔ مسلمان مورخین نے اس تنازع میں پڑنے سے خود کو بچانے کی کوشش اور متعدد مورخین اسے اس کے پرانے نام سے یاد کرتے رہے۔ 2001ء میں ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی خلیج فارس کا نام استعمال کیا۔ تاہم دوسری جانب خلیج کو الخلیج العربی کا نام بھی قدیم مورخین نے دیا ہے۔ سب سے پہلے اسے الخلیج العربی کانام رومی مورخ بلیموس نے دیا تھا۔ خارک شہر کے تعارف کرتے ہوئے انہوں نے پانی کے اس خلیج کو الخلیج العربی کا نام دیا۔
متعدد عرب تاریخی مصادر کے مطابق خلیج کو الخلیج العربی کا نام بہت قدیم زمانے میں دیا گیا ہے جو زرتشت دور کی دستاویزات سے ثابت ہے۔ برطانوی سفارت کار چارلس بلگریف نے 1955ء میں اس وقت اس خلیج کو الخلیج العربی کے نام سے یاد کیا تھا جب وہ بحرین کے حاکم کے مشیر کے طور پر تعینات تھے۔ 2009ء میں خلیجی ممالک اور ایران کے درمیان کھیلوں کے تمغوں پر نام لکھتے وقت یہ تنازع بہت بڑھ گیا تھا۔ اب تک متعدد بار یہ نام عرب ممالک اور ایران کے درمیان تنازع کی وجہ بنا ہے۔ گزشتہ برس جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کچھ کم ہوئی ہے ایسے میں امریکی صدر کے دورہ خلیج کے موقع پر دوبارہ اس تنازع میں شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 13مئی کو سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے پر خلیج پہنچ رہے ہیں جس کے لئے انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس دورے کے موقع پر بہت اہم اعلان کرنے والے ہیں۔
