اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

تحریر: محمد کلیم اللہ حنفی
شمائل الرسول میں یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہ اللہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام’’ محمد‘‘ تخلیق کائنات سے دو ہزار سال پہلے رکھا گیا۔امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو جہاں دیگر نصیحتیں فرمائیں وہاں پر یہ بھی فرمایا کہ میرے بیٹے ! ایک بات بطور خاص پیش نظر رہے کہ تم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ورد ِزباں رکھنا کیونکہ میں نے اس مبارک نام کو عرش الہٰی کے پائے پر لکھا ہوا دیکھا ہے ،میں نے یہ نام آسمانوں کی سیر کے دوراں بھی ہر جگہ دیکھا ، میں نے جنت کے ہر محل میں ، حوروں کی پیشانیوں پر ، طوبیٰ کی چٹکتی کلیوں اور پتوں پر ، سدرۃ المنتہیٰ کے ہر پتے پراوراطرافِ حجابات اور فرشتوں کی آنکھوں پر یہ مبارک نام لکھا ہوا دیکھا ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت نقل کی ہے : جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطاء صادر ہو گئی (یعنی وہ امر صادر ہو گیا جسے اس حدیث میں خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے) توآپ نے عرض کی:اے رب! میں تجھ سے حق محمد ی کے وسیلہ سے اپنی بخشش مانگتا ہوں تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو کیسے پہچانا؟ جبکہ میں نے انہیں ابھی پیدا ہی نہیں کیا۔ عرض کیا: اے رب! یہ اس لیے کہ جب تو نے مجھے اپنے دست ِ قدرت سے پیدا فرمایا اور اپنی جانب سے روح مبارک کو مجھ میں ڈالا، میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے ستونوں پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا، تب میں نے جان لیا کہ تو اپنے پاک نام کے ساتھ کسی کے نام کا اضافہ نہیں فرماتا مگر اس ذاتِ گرامی کے نام نامی کا اضافہ فرماتا ہے جو مخلوقات میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے سچ کہا،بے شک وہ مخلوقات میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اسی کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کیجیے۔ میں نے تجھے بخش دیا ہے اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔

علامہ علی بن برہان الدین حلبی رحمہ اللہ نے سیرت حلبیہ میں سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ کی گفتگوسیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوئی وہ یوں نقل فرمائی ہے کہ اے امیر المومنین!میں نے تورات میں پڑھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک پتھر ملا جس پریہ درج تھا : میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے رسول ہیں جو ان پر ایمان لے آیا اور ان کی اطاعت کی اس کے لیے خوشخبری ہے۔ام السیر سیرت حلبیہ میں ہے : علامہ زہری کہتے ہیں کہ میں ایک دن ہشام بن عبدالملک کے پاس جا رہا تھا ، جب میں بلقاء شہر کے قریب پہنچا تو مجھے ایک پتھر ملا جس پر عبرانی زبانی میں کچھ درج تھا ، میں وہ پتھر لے کر عبرانی دان ایک بزرگ کے پاس پہنچا وہ اسے پڑھ کر مسکرائے اور کہا کہ اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے اور نیچے لکھنے والے کا نام موسیٰ بن عمران ہے۔ یہی اللہ کے جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔ امام طبرانی نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینے پر یہ درج تھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔

ان تاریخی حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل آپ کے نام کا ڈنکا بجا ہوا تھا ، مختلف ادوار میں آپ کے بارے میں پیش گوئیاں بھی ہوتی رہیں جو بالکل سچی نکلیں۔تاریخ انسانی میں صرف پیارے نبی ہی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کا تذکرہ تخلیق کائنات سے پہلے بھی ، تخلیق کائنات کے وقت سے لے کر اب تک ہے اورروز قیامت تک رہے گا بلکہ روز قیامت سے لامتناہی نہ ختم ہونے والے وقت میں بھی ہمیشہ گونجتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ