شام پر اسرائیل کے مسلسل حملوں کے بعد ترکیہ کے ردعمل نے جنگ کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل شام کے متعدد مقامات پر اپنے وقفے وقفے سے حملے جاری رکھے ہوئے ہے. ایسے میں اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹس بشمول چینل 12 اور واللا نیوز سائٹ نے شام میں تل ابیب اور انقرہ کے درمیان غیر متعینہ تصادم کے امکان کی طرف اشارہ کیا۔
خاص طور پر شام کے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ترکیہ اور اسرائیل شام کے مسئلے میں تیزی سے مداخلت کررہے ہیں۔
اسرائیل پہلے ہی تین جنوبی صوبوں القنیطرہ، درعا اور ریف دمشق میں زمینی درندازی جاری رکھی ہوئی ہے۔
مبصرین کے مطابق شام کے حوالے سے ماضی میں تل ابیب کا رویہ مختلف تھا، خاص طور پر 14 سالہ شامی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے بری مداخلت کے بجائے شام میں فضائی طاقت کا استعمال جاری رکھا ۔
مگر نئی حکومت کے قیام کے بعد تل ابیب نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر نئی شامی فوج دمشق کے ارد گرد اور اس کے جنوب میں سویدا گورنری میں دروز کمیونٹی کی اکثریت والے علاقوں میں داخل ہوئیں تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔
یہ پیش رفت ملک کے شمال میں کچھ شامی دھڑوں کے لیے ترکیہ کی حمایت کے ساتھ ساتھ دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے والا پہلا ملک بننے کے بعد دارالحکومت میں ترکیہ کی سفارتی موجودگی کے دوران سامنے آئی ہے۔
عالمی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
شام کے بین الاقوامی امور کے ماہر غسان ابراہیم نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی طرف سے میڈیا میں تلخ بیانات اسرائیل کی اندرونی سیاست اور سیاسی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ شائد وہ داخلی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے ترکیہ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔
عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے غسان ابراہیم نے کہا کہ اسرائیل کی شام کی سرزمین میں پیش قدمی کا اصل میں یا براہ راست ترکیہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل ہی نے ایران کو شام سے نکالا، جس کا ترکیہ نے فائدہ اٹھایا اور اپنی موجودگی کو مضبوط کیا۔
سات آئی پی پیز بجلی سستی کرنے پر مشروط آمادہ، شرائط کیا ہیں؟
دوسری طرف ترکیہ کے امور میں ماہر صحافی اور محقق سارکیس کاسرجیان نے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی لیکس شام میں ترکیہ کے وسیع اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی اسرائیلی خواہش کی نشاندہی کرتے ہیں، جو کہ دمشق اور انقرہ کے درمیان بڑھتے تعلقات کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترکی اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے، کیونکہ یہ شام میں ایران کے پراکسی کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ اسرائیل پر بالادستی حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تل ابیب کو خدشہ ہے کہ ترکیہ اسرائیل کی سلامتی اور تحفظ کو خطرے میں نہ ڈالنے کے بدلے میں امریکا پر دباؤ ڈالنے کے لیے مسلح دھڑوں کو سودے بازی کے لیے استعمال کرے گا۔
ترکیہ کے امور میں ماہر صحافی اور محقق کے مطابق اسرائیل نے حال ہی میں دارالحکومت دمشق کے جنوب میں سرخ لکیریں کھینچ کر شام میں “ترکیہ کے کردار اور اثر و رسوخ کو متوازن” کرنے کی کوشش کی ہے۔