رمضان کے آخری عشرے کی اہمیت

حافظ محمد طیب
اللہ ربُّ العزت نے رمضانِ مبارک کو سال کے گیارہ مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس ماہ کے فضائل و مناقب، تکریم و تعظیم کا کیا ہی کہنا۔ اس کی برکات و حسنات بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ ماہ اپنے ساتھ رحمتوں کا خزانہ لاتا ہے، لیکن اُن کے لیے جو اس ماہ کی دل و جان سے قدر کریں۔ جو اس ماہ کی قدر نہیں کرتے بہت ہی ناعاقبت اندیش ہیں۔
یہ مقدس مہینہ گمراہی کے راستے سے ہٹا کر سیدھی راہ پر لاتا ہے اور گردنوں سے شیطانی طوق اتار کر تاجِ ایمانی کو زینتِ سر بناتا ہے۔ یہ ہماری نجات و فلاح کا وسیلہ ہے۔ اس کی فضیلت کا صحیح اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں۔ اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔ جس طرح رمضان کو تمام مہینوں پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح آخری عشرہ پہلے دو پر فائق و برتر ہے۔ لہٰذا اسے غنیمت سمجھ کر خوب ذوق و شوق سے عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ایسی عبادت و محنت کرتے تھے جو دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی تھی۔ (مشکوٰة) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے، خود بھی شب بیدار رہتے اور گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔ (مشکوٰة)
اِس عشرے کی فضیلت کی اہم وجہ اس میں ایک رات کا ہونا ہے جو تمام راتوں میں افضل و اشرف ہے جسے ’لیلة القدر‘ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر بتایا گیا ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ احکام نازل فرماتے اور تقدیر مقرر فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رات کی بڑی عظمت و فضیلت ہے۔ اس رات کو پانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے رمضان کا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دس دن تو کبھی ترک نہ فرمائے، یہاں تک کہ ایک بار کسی خاص عذر کے تحت رمضان میں اعتکاف نہ کرسکے تو شوال المکرم میں اعتکاف فرمایا۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رضاءالٰہی کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے، خصوصاً رمضان میں عبادت کا خوب اہتمام فرماتے۔ حضرت سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکم رمضان سے بیس رمضان تک کا اعتکاف فرمایا اور فرمایا کہ :”میں نے شب قدر کی تلاش کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر مجھے بتایا گیا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ کرے۔ “ (مشکوٰة شریف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : ”جو شخص رمضان کے آخری دس دنوں میں صدق و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کرے گا، اللہ عزوجل اس کے نامہ اعمال میں ہزار سال کی عبادت درج فرمائے گا اور قیامت کے دن اسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔ (تذکرة الواعظین) احادیث نبوی میں لیلة القدر کے قیام کی بڑی فضیلت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:”جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر کھڑا رہا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ (بخاری و مسلم) جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور اس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا اللہ کے ذکر و عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ (شعب الایمان) اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو میں اس رات اللہ سے کیا دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ دعا کروکہ ” یا اللہ آپ معاف کرنے والے ہیں معافی کو پسند فرماتے ہیں، سو مجھے معاف کردیجےے۔ “
ہمیں اس آخری عشرے میں خوب انہماک سے عبادت میں مشغول ہوجانا چاہیے، نماز میں خشوع و خضوع اختیار کریں۔ اپنے اوپر عاجزی و انکساری طاری کریں۔ نمازیں ٹھہر ٹھہر کر اللہ کی یاد اور محبت میں گم ہوکر ادا کریں۔ الفاظ و معانی پر توجہ دیں، اس سے اِن شاء اللہ وسوسے اور خیالات بھی پاس نہیں پھٹکیں گے اور سکونِ قلب و روحانی پاکیزگی محسوس ہوگی اور دعا کی قبولیت کا بھی زیادہ امکان ہوگا۔ اس ماہ میں نوافل کا ثواب عام دن کے فرض کے برابر ہے، لہٰذا نوافل کا خاص اہتمام کرنا چاہےے۔ اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد اپنے اوپر لازم کریں۔ صلوٰة التسبیح خاص طور پر پڑھیں کہ اس کے بہت فضائل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس کی ترغیب دی تھی۔ اس ماہ میں تلاوت کا بھی ذوق رکھئے کہ اس ماہ کو قرآن کریم سے مناسبت ہے، کیونکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر رمضان میں نازل ہوا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود بھیجنے کو معمول بنالیں، درود کے ساتھ دعا بھی قبول ہوتی ہے۔
وہ شخص کتنا حرماں نصیب ہے جو یہ راتیں دنیا کے کاموں اور فضول گپ شپ میں گزار دے اور اپنے توشہ آخرت میں اضافہ نہ کرے۔ دنیا کے چند ٹکوں کی خاطر ہم کتنی مشقتیں جھیلتے اور مصیبتیں برداشت کرتے ہیں، کیا اس برکتوں اور رحمتوں والی رات کو پانے کے لئے تھوڑی جدوجہد نہیں کرسکتے؟ یہ دنیا کھیتی ہے اور ہم اس کے کاشتکار۔ یہاں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ آخرت میں دنیا کے ایک ایک لمحہ کی قدر معلوم ہوگی اور افسوس ہوگا کہ کاش ایک لمحہ بھی نیکی کے بغیر نہ گزارتے۔ لہٰذا یہ ایام یہ سوچ کر گزاریں کہ معلوم نہیں اگلے رمضان تک زندہ رہیں نہ رہیں۔ لہٰذا جتنا ہوسکے نیکی میں کمی نہ کریں۔ کتنے ہی ایسے آدمی ہیں جو پچھلے رمضان ہمارے درمیان موجود تھے لیکن اب ان کا نام ونشان نہیں اور معلوم نہیں کہ اگلے رمضان کا آخری عشرہ اور اس کی راتیں ہمیں نصیب ہوں گی یا نہیں۔