نظریۂ ارتقا کی درمیانی کڑی

دوسری قسط:
ماہرین حیاتیات اور سرجن حضرات قرار دیتے ہیں کہ انسان کا صرف دماغ ہی ایسی شاندار اور پیچیدہ مشینری ہے کہ تاحال بھی اسے مکمل طور پر نہیں سمجھاجاسکا ہے۔ چنانچہ ان تمام مضبوط حقائق کے بعد کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ انسان کی ہستی فی الاصل بندروں سے نشو ونما پاکر ہی احسن تقویم کے درجے تک پہنچی ہے؟ مذکورہ خاکہ بتارہا ہے کہ چمپانزی بندر نے کس طرح آہستہ آہستہ زمین سے اٹھنا شروع کیا تھا اورمدتوں تک ایک حالت میں رہنے کے بعد دوسری اور تیسری حالت سے ہوتاہوا بالآخر اپنی دوٹانگوں اور انسانی شکل پر زندگی گذارنے کے قابل ہوسکا تھا، لیکن معما اس انکشاف میں یہ ہے کہ ایسی جھکی ہوئی حالت میں انسان دس منٹ بھی نہیںچل سکتا کجا کہ وہ مکمل چالیس پچاس سال گزار دے۔ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسا ہو۔ پھر تصویر میں آپ ہر مرحلے کے انسان کو برہنہ حالت ہی میں دیکھ رہے ہیں۔ گویا سو ڈیڑھ سو سال بعد بھی اسے کپڑے بنانے کا شعور نہیں ہو سکا اور شکا ر بھی وہ صرف نیزے ہی سے کرتارہا۔ محض جنگلی کا جنگلی ہی رہا۔

چنانچہ یہ انہی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ اور روحانیت سے جان چھڑانے والے باغی سائنس دان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی جارہی ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ بھی انہی کی مانند اس نظریے کو فروغ دینے میںپیش پیش ہیں، کیونکہ ان کی توفطرت ہی یہ ہے کہ حقائق سے زیاد ہ وہ افسانوں اور سنسنی خیزیوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہی ان کے روزگار کی شاہ کلید بھی ہے۔ چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میںپھیلا دینے والے لوگ اور ادارے بھی یہی ہیں۔ انہی مفکرین نے کمپیوٹرز کی چالبازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں (انسانوں) کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھا یا ہے (تاکہ وہ بن مانس نما کوئی چیز لگیں) اور انہیں تعلیمی نصاب میں شامل کروایا ہے، بلکہ حیرت انگیز طورپر وہ تو ان کے جسموں پر پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچاکرتے ہیں۔ حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہوبھی گیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ ذہنی ترقی کرچکاتھا تو اپنے پوشیدہ حصوںکو تو اُسے فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، کیونکہ تھوڑی سی شرم و حیا تو اللہ تعالیٰ نے جانوروںکے ا ندربھی رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مر غی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور کتے اپنی دموں کو عموماگرا کر ہی رکھتے ہیں۔

آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں، کیونکہ مرد ہو یا عورت، انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے۔ دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں الیومیناتی لوگوںکو حیوانات کی ایک تصویر بھی اصلی نہیں مل سکی ہے۔ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو بھی مسلسل گردش میں رکھتے ہیں۔ پروپیگنڈا اصل میں ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے۔ صحیح یا غلط، دونوں نظریات کو بلاجبر دنیا بھر کی سات ارب کی آبادی سے اگر ازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب، رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ اس کی اس آرزو کو چندسالوں ہی میں بآسانی پورا کر دیتے ہیں۔ جبکہ ان کاذب نظریات کا رد اور اصل حقائق سے لوگوں کی باخبری، مذکورہ ذرائع کی مدد کے بغیر تقریباً ناممکن ہی بنا دی جاتی ہے۔ تہذیب عالم کی قدیم ترین کھدائیوں، مصر، ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہن جوڈارو وغیرہ سے بھی کسی جگہ وہ درمیانی حیوانی و انسانی شکلیں دریافت نہیں ہوئیں جو ڈارون کے نظریات کو تقویت دے سکیں۔ پانچ چھ سالہ قدیم تہذیبوں کی ان کھدائیوں سے انسان کو اگرچہ بہت کچھ نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں، لیکن کوئی درمیانی انسان یا فوسل انہیںنہیں مل سکا۔ حالانکہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں سے انسان کو قدیم ترین تہذیبوں اور تواریخ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔

٭پلٹ ڈائون مین: ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بیزار سائنسدانوں نے پھر ایک اور چال چلی۔ انہوںنے بہت بعد میںایک ایسا درمیانی انسان دریافت کرلیا جو بقول ان کے تین چار سو سالوں کے بعد بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا۔ انگلینڈ میں اسی کے تقریباً ہم نام ایک اور سائنسدان چارلس ڈاسن Charlws Dawson نے برطانوی گائوں Piltdown میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچہ پایا۔ اس ڈھانچے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچہ اور جبڑے کی ہڈی، چیپینزی کی اور دانت انسانوں کے سے باور کروائے گئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کردیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریہ ارتقا بالکل درست تھا اور یہ کہ یہ انسان اس کا عملی، عقلی و ناقابل تردید ثبوت ہے۔ ڈھانچہ چونکہ پِلٹ ڈائون نامی علاقے برطانیہ سے ملا تھا، اس لئے ڈھانچے کو بھی Piltdown Man کہہ کر پکارا جانے لگا۔ (کتاب Jewish History and Culture ۔ Rabbi Benjamin Blech. Publisher Alpha, USA. Year NA.) اتفاق دیکھئے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ (جاری ہے)