تجارت کے نام پر نظریاتی بلیک میلنگ

یورپی یونین (ای یو) نے پاکستان کو یاد دلایا ہے کہ جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) کے تحت پاکستان کو حاصل ہونے والے تجارتی ثمرات کا انحصار انسانی حقوق سمیت مسائل کی فہرست سے نمٹنے میں ہونے والی پیش رفت پر ہے اور اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس ”اصلاحات” ضروری ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان کے ایک ہفتے کے دورے پر موجود انسانی حقوق کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے اولوف اسکوگ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ شہریوں کے خلاف مقدمات کی پیروی کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال نہ کرے ۔انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے حالیہ اقدامات کی مخالفت کی۔اولوف اسکوگ نے توہین رسالت کے قوانین کے اطلاق، خواتین کے حقوق، جبری شادیوں، تبدیلی مذہب، جبری گمشدگیوں، اظہار رائے، مذہب یا عقیدے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنائ، مناسب طریقہ کار اور منصفانہ ٹرائل کے حق شہری آزادی اور سزائے موت جیسے خدشات کے شعبوں کو اجاگر کیا۔

یورپی یونین کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یورپی یونین کے مشن کا مقصد پاکستان سے انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کے اہم ترین معاملات پر بات چیت کرنا اور جی ایس پی پلس تجارتی اسکیم کے تحت جاری جائزے سمیت ان کے حل کے لیے پاکستان کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم پاکستان کی ”حوصلہ افزائی” کرتے ہیں کہ وہ آئندہ نئے جی ایس پی پلس ریگولیشن کے تحت دوبارہ درخواست دینے کی تیاری کرتے ہوئے اپنی اصلاحات کی راہ پر گامزن رہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں یورپی یونین کا اہم شراکت دار ہے اور اس بلاک کے ساتھ اس کے تعلقات جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار پر استوار ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں کے اصولوں پر مبنی ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر غیر متعلقہ شرائط عائد کرنا مغرب کے مخصوص نفسیاتی عارضے کی علامت ہے جس کے تحت مغرب خود کو خواہ مخواہ دنیا میں تہذیب،انسانی حقوق اور رواداری کا چیمئین سمجھتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو اپنا غلام سمجھ کران پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ورنہ اصول کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت و اقتصادیات کو ہر قسم کی سیاسی ،فکری و نظریاتی جکڑبندیوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ پاکستان کی برآمدات کو یورپی ممالک میں رسائی ملنایورپی ممالک کا کوئی احسان نہیںبلکہ عمومی تجارتی اخلاقیات کا تقاضا ہے۔جب پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پذیر ممالک یورپی ممالک سے ان کی مصنوعات خریدتے ہیں اور ان ممالک کی صنعتوں کی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں تو ان ممالک میںترقی پذیر ممالک کے خام مال کی کھپت بھی اسی تبادلۂ تجارت کا حصہ ہے۔اب اس کو کسی ملک کو سیاسی یا نظریاتی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنانا اور یہ کہنا کہ اگر تم ہماری فلاں فلاں غیر متعلقہ شرائط نہیں مانوگے تو ہم تم سے خام مال نہیں لیں گے،لے درجے کی کم ظرفی ہے جو شاید مغرب ہی کا خاصہ ہے۔
مغرب انسانی حقوق کا کتنا محافظ ہے اور اسے آزادی اور انصاف سے کتنا لگاؤ ہے،اس کا مشاہدہ حالیہ عرصے میں غزہ میں جاری نسل کشی پر اس کے ردعمل سے لگایا جاسکتا ہے۔اسرائیل نے پندرہ ماہ کے عرصے میں غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی،17ہزار بچوں اور 15ہزار خواتین سمیت کم از کم 50ہزار جیتے جاگتے انسانوں کو فاسفورس بموں سے بھسم کرکے رکھ دیا،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اورسلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی عدالت انصاف و بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں اور حکمناموں پر تھوکتے ہوئے اس نے فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی جاری رکھی ،اس پر تو یورپی یونین نے کسی تکلیف کا اظہار نہیں کیا،اسرائیل پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ انسانیت کے خلاف اسرائیل کے دیدہ و دانستہ جرائم پر مذمت کے دولفظ تک کہنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی جبکہ پاکستان جو کہ تمام مسلمہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے اور انسانی حقوق سے متعلق متعدد بین لاقوامی فورموں کا رکن ہے،کا بازو مروڑنے اور اسے بلیک میل کرنے کے لیے ہر دوسرے تیسرے ہفتے کوئی نہ کوئی بیان جاری کیا جاتا ہے یا کوئی نہ کوئی ہرکارہ بھیجا جاتا ہے۔دنیا کو کونسا ملک ہے جہاں انسانی حقوق سے متعلق مسائل نہ ہوں،ہر سماج اور معاشرے میں بہت سی معاشرتی پیچیدگیاں ہوتی ہیں جن سے معاشرے کے بہت سے طبقات متاثر ہوتے ہیں، آزادیٔ اظہار کا مطلب دنیا میں کہیں بھی مادر پدر آزادی نہیں ہوتی ورنہ ہولوکاسٹ کے تاریخی افسانے کے انکار پر مغربی ممالک میں پابندیاں نہ لگائی جاتیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ دنیا کی ایک حقیر ترین اقلیت کے جذبات مجروح ہونے کے نام پر ہولوکاسٹ کے بارے میں مخصوص صہیونی بیانیے کے بر عکس ایک لفظ کہنا بھی گوارا نہیں کرتے اور اس وقت بھی سینکڑوں لوگ اس جرم کی پاداش میں زیر عتاب ہیں جبکہ دوسری جانب آپ دنیا کی دو ارب آبادی کے عقیدے اور عقیدتوں کے مرجع و منبع پر حملے کرنے کو ”انسانی حق” قرار دے کر اس کے مجرموں کی وکالت شروع کردیتے ہیں۔آج متعدد مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کو حجاب کے مسئلے پر امتیازی قوانین اور غیر منصفانہ سلوک کا سامنا ہے۔ مغرب خود اپنے ہی فلسفے کے تحت ان کو مرضی کا لباس پہننے کی اجازت دینے کا روادار نہیں۔ پھر بھی وہ دوسروں کو لیکچر دیتا پھرتا ہے کہ خواتین کے حقوق کیا ہوتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو یورپی یونین سمیت کسی بھی مغربی طاقت کی نظریاتی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور تجارتی تعلقات کی آڑ میں پاکستان پر اپنا مخصوص ایجنڈا مسلط کرنے کی کوششوں کو مسترد کردینا چاہیے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں خود احتسابی کے تحت اپنے ہاں پائی جانے والی سماجی خرابیوں،معاشرتی ناہمواریوں بالخصوص خواتین،اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اورنا انصافیوں کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے اور کسی خاجی قوت کو ملک کے نظام انصاف، طرز حکمرانی اورآئین اور قانون پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہیے تاہم یہ سب ہمیں اپنی طبع زاد حکمت عملی اور قومی بصیرت کے ساتھ کرنا چاہیے ،خارجی دباؤ پر کیا جانے والا کوئی بھی اقدام پاکستان کے عوام نے پہلے کبھی قبول کیا ہے نہ آیندہ کریں گے۔