دنیا میں کبھی کوئی دوسری جنگ، ایسی نہیں لڑی گئی جس میں 20فیصد آبادی محض ڈیڑھ سال میں فنا کر دی گئی ہو۔ غزہ میں کھنڈرات کا ایک مہیب سلسلہ شمال سے جنوب تک پھیلتا چلا گیا ہے۔ ٹرمپ نے جنگ بندی کرائی ہی اس لئے کہ غزہ اور اس کے بعد مغربی کنارہ فلسطینیوں سے پاک کرایا جا سکے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مصر اور اردن اہل غزہ کو پناہ دیں تاکہ مشرق وسطی میں ”امن” قائم ہو سکے۔ ہم 1.5 ملین افراد کی بات کر رہے ہیں تاکہ پورا علاقہ صاف کیا جا سکے۔ یہ منتقلی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور طویل مدتی بھی، کیونکہ یہاں ہر چیز ملیامیٹ ہے۔ میری کوشش ہے کہ عرب ممالک کے تعاون سے اہل غزہ کو ایک نئی جگہ رہائش فراہم کی جائے، جہاں وہ امن سے رہ سکیں۔ ٹرمپ کی تجویز مصر، اردن، غزہ کے فلسطینیوں اور مغربی حمایت یافتہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی نے سختی سے مسترد کردی ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اسرائیل انہیں واپسی کی اجازت نہیں دے گا۔ اگرچہ فی الوقت اردن اور مصر نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی منتقلی خطے میں تنازعات کے پھیلاؤ اور امن اور بقائے باہمی کے امکانات کو نقصان پہنچانے گی۔ ماضی کودیکھا جائے توانہی ممالک نے فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ شاہ حسین نے 1967 کی جنگ کے بعد اردن میں فلسطینی آبادی کا صفایا کیا۔ شنید ہے کہ جنرل ضیا الحق بھی اس ”کار خیر” میں شریک ہوئے مصر نے بھی کئی بار یہ”کارنامہ” انجام دیا۔ منصوبے کی.حمایت اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر اور وزیرخزانہ بتسلئیل سموٹریچ نے کی ہے۔ بن گویر نے کہا ”میں صدر ٹرمپ کو غزہ کے مکینوں کی منتقلی کی تجویز پرمبارکباد پیش کرتا ہوں”۔ وزیر خزانہ سموٹریچ نے کہا کہ ”اہل غزہ کی نئی زندگی کے لیے دوسرے مقامات پر مددکی فراہمی ایک شاندار خیال ہے”۔
حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم اور اسلامی جہاد نے کہا کہ غزہ میں فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین کے لیے 15 ماہ موت اور تباہی برداشت کی، تعمیر نو کی آڑمیں ایسی کوئی تجویز قبول نہیں۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حق اور وجود کے منافی ہے۔ محمود عباس نے ایسے کسی بھی منصوبے کی مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باسیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ ٹرمپ کی تجویز، فلسطینیوں کی نسلی صفائی اور ان کے مصائب میں تیزی سے اضافے کا باعث ہو گی۔
فلسطینیوں کے نقل مکانی اسرائیلی تخلیق کے ساتھ شروع ہوئی۔ 1948 کی جنگ سے قبل اور دوران، تقریبا 7لاکھ فلسطینی گھروں سے نکالے گئے، جنہیں آج تک واپسی کی اجازت نہیں ملی، اس واقعے کو فلسطینی نکبہ کا نام دیتے ہیں۔ اب پناہ گزین اور ان کی اولاد6 ملین ہے جو غزہ، مغربی کنارے، اردن، لبنان اور شام میں ہے۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کیا تو مزید 300,000 فلسطینی اردن گئے۔ فلسطینی واپسی کے حق کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہیں پڑوسی عرب ممالک کو پناہ دینی چاہیے۔ بہت سے فلسطینی غزہ کی تازہ ترین جنگ کو ایک نیا نکبہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ جنگ میں غزہ کی90 فیصد آبادی گھروں سے بے دخل کی گئی، یرغمالیوں کے تبادلے میں ہزاروں افراد، سب سے زیادہ تباہ شدہ حصے شمالی غزہ میں واپس آئے۔ غزہ میں 60 فیصد سے زائد عمارتیں مکمل تباہ یا بری طرح متاثر ہیں ان کی تعمیرِ نوممکن نہیں۔ خان یونس کے مکین ابو یحیی راشد نے کہاکہ ہم خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، یہ زمین ہماری اور ہمارے آباء و اجداد کی ملکیت ہے۔ ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے اگر ہمیں مردہ حالت میں لے جایا جائے۔
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
فلسطینیوں کے لیے واپسی کی امید اس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جس کا انتظارکھنڈرات اور ہر جانب پھیلی تباہی کررہی ہے۔ گھروں کی تعمیر نواور کنبوں کے ساتھ ملنے کا خواب انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینی شاعر محمود درویش نے ایک نظم میں اس خواب کی عکاسی کی ہے۔میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد!
معدوم ہوتے ہوئے لفظوں کے
درمیان سے گزرنے والو!
تمہاری طرف سے تلوار، ہماری طرف سے خون
تمہاری طرف سے فولاد، ہماری طرف سے گوشت
تمہاری طرف سے ایک اور ٹینک
ہماری طرف سے پتھر، تمہاری طرف سے آنسو گیس
ہماری طرف سے آنسو اور بارش
ہم پر اور تم پر بھی آسمان
ہمارے لئے اور تمہارے لیے بھی ہوا
اس لئے لے لو ہمارے خون میں سے اپنا حصہ اور چلے جاؤ
جاؤ چلے جاؤ کسی رقص کی تقریب میں
ہمیں تو آبیاری کرنی ہے پھول کی، شہیدوں کی
ہم تو ابھی اور زندہ رہنا ہے
جہاں تک ممکن ہو
عربوں سے بڑی امید تھی مگر فلسطینیوں کو اپنی جنگ خود لڑنا پڑی:
موسم آیا تو نخل دار پہ میر
سرِ منصور ہی کا بار آیا
اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثر اس پر فخر کیا کہ اسرائیل کا وائٹ ہاؤس میں ان سے بہتر دوست کبھی نہیں تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ ”غزہ موناو سے بھی بہتر بن سکتا ہے اگرصحیح طریقے سے تعمیر کیا جائے۔” ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے فروری 2024میں تجویز دی کہ اسرائیل غزہ سے شہریوں کو نکالے تاکہ سمندر کے کنارے سیاحتی منصوبوں کا آغاز ہوسکے۔ غزہ میں فلسطینی2.4ملین ہیں، جنہیں اسرائیلی نسل کشی میں کئی بار نقل مکانی کرنی پڑی۔ اسرائیل کی7 اکتوبر 2023 تا 19 جنوری 2025 غزہ میں نسل کشی سے158,000 سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں اور 14,000 سے زائد لاپتا ہیں۔ مغربی کنارے کے ایک حصے جنین میں آپریشن پر اسرائیل کا کہنا ہے کہ جو غزہ میں کیا، وہی جنین میں کریں گے۔ بہرحال غزہ اور فلسطین منصوبے کے مطابق ختم بھی ہو گئے تو بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ عرب ممالک مصر، شام، اردن، سعودی عرب وغیرہ کے عوام میں جذبات کاایساابال ہے جو ماضی میں دیکھنے میں نہیں آیا اور روز مکافات سے بھی کوئی نہیں بچ سکتا۔
فارسی میں کہتے ہیں ”تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ” انسان تدبیر کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے۔ سب معاملات انسانی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں چلتے، قضا و قدر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ منصوبہ بندی اپنی جگہ مگر تقدیر کے آگے وہ بھی بے بس ہیں۔ تاریخ بھی خود کو دہراتی ہے۔ صدیوں پہلے مصری حکومت صلیبیوں کی پشت پناہ تھی۔ ایک کرد نے مصری حکومت کا خاتمہ کرکے صلیبیوں سے بیت المقدس آزاد کرایا۔ مصری عوام کی اکثریت نے صلیبیوں کی اتحادی حکومت کے خاتمے پر جشن منایا اور صلاح الدین ایوبی نے نئی حکومت کی بنیاد رکھی۔ ایسا کب ہوگا، کوئی پیشین گوئی ممکن نہیں لیکن قرآن وسنت سے اشارے اور تاریخ سے شواہد ملتے ہیں کہ صہیونی بھی انجام کو پہنچیں گے۔ فتنہ تاتار کبھی ناقابل تسخیر تھا، پھر افسانہ بن گیا۔ عوامل اور حوادث غیب سے ہی نمودار ہوتے ہیں۔ تاریخ خود کو کب دہرائے گی، اس کا فیصلہ عوامل اور حوادث کرتے ہیں، ناممکنات میں سے ہی ممکنات برآمد ہوتے ہیں۔
