تحریر: مولانا محمد الیاس گھمن
گزشتہ سے پیوستہ
ماہِ شعبان کے روزے
ٍ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، بلکہ رمضان کے بعد جس مہینہ میں روزوں کا زیادہ ا ہتمام فرماتے تھے وہ یہی شعبان کا مہینہ ہے۔ چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:1:عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا یَصُومُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہُ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ (صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969)ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتیتو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
2: عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ النبی صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ کَانَ یَصُومُہُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِیلاً بَلْ کَانَ یَصُومُہُ کُلَّہُ (جامع الترمذی: رقم الحدیث736)ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر’’کل‘‘ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔3:فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے: الْمَرْغُوبَاتُ من الصِّیَامِ أَنْوَاعٌ أَوَّلُہَا صَوْمُ الْمُحَرَّمِ وَالثَّانِی صَوْمُ رَجَبٍ وَالثَّالِثُ صَوْمُ شَعْبَانَ وَصَوْمُ عَاشُورَائَ (ج1 ص202)ترجمہ:مستحب روزوں کی کئی قسمیں ہیں؛: محرم کے روزے،رجب کے روزے، شعبان اور عاشوراء کے روزے۔
نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کی تحقیق
جامع الترمذی میں روایت ہے:قَالَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِّنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا (جامع الترمذی: رقم الحدیث 738)ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے توروزہ نہ رکھا کرو۔اس روایت کے پیش نظر فقہاء ِکرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے، البتہ چند صورتوں کومستثنیٰ فرمایا ہے کہ ان میں پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔وہ صورتیں یہ ہیں:1: کسی کے ذمہ قضاء روزے ہوں یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں ان ایام میں رکھنا چاہتا ہو۔2:ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزے رکھتا چلاا ٓ رہا ہو۔3:ایسا شخص کہ جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے، اب وہ دن یا تاریخ شعبان کے آخری د نوں میں آ رہی ہے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو کہ جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ (ملخص: درس ترمذی: ج2ص579)
شعبان کی پندرھویں رات
ماہ شعبان کی پندرھویں رات بہت فضیلت والی رات ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ اس کو ’’شب براء ت‘‘ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس رات لا تعداد انسان رحمت باری تعالیٰ سے جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔شب براء ت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انہیں موضوع و من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، عبادت کے نام پر ایسے منکرات سر انجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔اس بارے میں معتدل نظریہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سے اس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اور اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔