مسئلہ فلسطین کی اصل حقیقت۔ انور غازی

مسئلہ فلسطین نہ سیاسی جھگڑا ہے اور نہ ہی جغرافیائی تنازع۔ یہ ایک مذہبی، دینی، آسمانی اور نظریاتی مسئلہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ فلسطین روئے زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی ہر اعتبار سے تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے مادی اور روحانی برکات سے مالا مال فرمایا ہے۔ کئی جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام اس سرزمین پر مبعوث ہوئے۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف فاتحین کی جنگ آزمائی کا میدان بھی رہا۔ یہاں کی سرزمین نے زمانے کے اتنے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں جو کم ہی کہیں اور دیکھنے میں آئے ہوں گے۔
القدس وہ عظیم ورثہ ہے جس کے محافظ و خادم کا منصب خالقِ کائنات نے مسلمانوں کو بخشا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے جب مقدس عبادت گاہ کی حرمت کا تحفظ نہ کیا، اس کی پاکیزہ فضاؤں کو اپنے زہریلے گناہوں سے آلودہ کیا اور اللہ اور انبیاء کی طرف سے کی گئی بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معزول کر کے امتِ محمدیہ کو یہ عظیم منصب سونپ دیا۔ اب فلسطین کے اصل حق دار مسلمان ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ کی دنیا میں تشریف آوری کا ایک بنیادی مقصد دیگر تمام مذاہب پر اسلام کو بالا دست بنانا بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ھُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولہَ بِالدیٰ وَ دِینِ الحَقِّ لِیُظِرہَ عَلَی الدِّینِ کُلہِّ۔ (وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دے۔) اسلام سے قبل عیسائیت و یہودیت کی شکل میں موجود آسمانی دین بھی اس کو تسلیم کرتے تھے کہ آخری نبی نے آنا ہے اور ہم سب کو ان کی پیروی کرنی ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی وارث ہیں اور عیسائیت و یہودیت کے بجائے اسلام ہی ہے جو قیامت تک دنیا پر غالب آئے گا۔ اس پر مزید گفتگو سے پہلے القدس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
300قبل مسیح کنعانیوں نے اس کو بنایا۔ 1850قبل مسیح حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں آئے اور یہاں کے بادشاہ سے ملے۔ 931 قبل مسیح ”القدس” پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت رہی۔ 587قبل مسیح بخت نصر کے ہاتھوں یہ تباہ کر دیا گیا اور یہاں کے یہودی قیدی بنا لیے گئے۔ 135میں رومی بادشاہ ھد ریان نے یہاں سے یہود کو نکال باہر کیا۔ 400عیسوی میں القدس بازنطینی استعمار کے زیر نگیں رہا۔ 636عیسوی میں مسلمانوں نے معرکہ پر موک کے بعد ان علاقوں کو آزاد کرایا۔ 636ہجری میں 3000صحابہ نے اسے فتح کیا اور یہاں کے پادری صفر و نیوسی نے شہر کی چابیاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے کیں اور معاہدہ کیا۔ 1099ء میں صلیبیوں نے یہاں پر قبضہ کیا۔ 187ء میں معرکہ حطین میں صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے صلیبیوں کو شکست فاش دی اور القدس کو آزاد کرایا۔ 1260ء میں معرکہ عین جالوت ہوا جس میں القدس کو تاتاریوں سے آزاد کرایا گیا۔ 1616ء میں عثمانی خلافت نے اسے اپنا حصہ بنالیا۔
1917ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی، خلافت عثمانیہ ختم کر دی گئی اور القدس انگریز کے قبضے میں چلا گیا۔ 1917ء میں ”بالفور” معاہدہ ہوا اس کے تحت یہاں ”یہودی ریاست” قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ 1948ء میں فلسطین کے 78فیصد علاقے میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ 1967ء میں یہود نے فلسطین کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ 1987ء میں یہودیوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ارضِ مقدس فلسطین یہودیوں کے تسلط میں کس طرح چلی گئی؟ اس دردناک داستان کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں نے جب 636ء میں انجیل کی پیش گوئی کے مطابق فلسطین فتح کر لیا تو اس کے بعد یہ طویل عرصے تک مسلمانوں کے پاس رہا۔ انہوں نے یہاں شاندار علمی و تہذیبی ورثہ چھوڑا۔ بارہویں صدی عیسوی میں اہلِ یورپ نے اسے مسلمانوں سے چھیننے کے لیے مشہور صلیبی جنگیں لڑیں۔ ایک مرتبہ وہ کامیاب بھی ہو گئے، مگر فرزندِ اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے انہیں زبردست معرکہ آرائی کے بعد یہاں سے نکال باہر کیا اور انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی یہ وراثت مسلمانوں کے پاس رہی۔ 1516ء میں فلسطین ترکوں کی عملداری میں آ گیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ آخر عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید خان تھے۔ یہودیوں نے فلسطین پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کے سبب طے کرلیا تھا کہ فلسطین میں صہیونی ریاست تشکیل دینی ہے، اس لیے انہوں نے پہلے مال و دولت کے ذریعے اپنا کام نکالنے کی کوشش کی۔ سلطنت عثمانیہ غیر ضروری اخراجات کے سبب مقروض ہو چکی تھی۔ یہودیوں نے سلطان کو پیشکش کی اگر وہ فلسطین کا علاقہ ان کے حوالے کر دیں تو وہ نہ صرف یہ کہ سلطنت پر چڑھا ہوا سارا قرض چکا دیں گے بلکہ اس کے علاوہ بھی کثیر مقدار میں سونا پیش کریں گے۔ عثمانی سلطان کیسے ہی سہی مگر ان کی رگوں میں فاتحین کا خون دوڑ رہا تھا، انہوں نے یہودیوں کو کورا جواب دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے: ”اگر تم اپنا سارا مال ودولت لا کر میرے قدموں میں ڈھیر کر دو تو پھر بھی میں فلسطین کی اتنی مٹی بھی نہ دوں گا۔”
لارڈ رچرڈ ایک کٹر یہودی تھا، انتہائی متعصب اور شدت پسند، مالدار اتنا تھا کہ اسے خود بھی اپنی دولت کا صحیح صحیح اندازہ نہ تھا۔ اس نے اپنی ساری دولت صہیونیت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اعلان بالفور کے ذریعے یہودی ریاست کا خاکہ تشکیل دیا گیا تو اس وقت صہیونی منصوبہ سازوں کے سامنے اہم مسئلہ فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب بڑھانے کا تھا۔ اس شخص نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ اس نے فلسطینی باشندوں کو منہ مانگی قیمت ادا کر کے ان سے زمین خریدنا شروع کی اور اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے لیے پیسے کو بے دریغ لٹایا۔ اس وقت کے علما نے عوام کو سختی سے منع کیا کہ وہ یہودیوں کو زمین بیچ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہ ماریں۔ دردمند مسلمانوں نے دنیا بھر کے مشاہیر علماء سے اس بارے میں فتاوی منگوائے اور عوام الناس کو مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن رچرڈ جیسے یہودیوں کی دولت نے عامتہ المسلمین کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا اور وہ مہنگی قیمتوں کے لالچ میں اپنی زمین دھڑا دھڑ فروخت کرتے چلے جارہے تھے۔ مشکل یہ ہے کہ عوام الناس اس وقت تک ہوش کے ناخن نہیں لیتے جب تک پانی سر سے اونچا نہیں ہو جاتا۔ علمائے کرام کی نصیحتوں اور مسلم زعماء کی اپیلوں پرکسی نے کان نہ دھرا اور رچرڈ جیسے سرمایہ دار یہودیوں کی وجہ سے فلسطینی زمینوں کی ملکیت اس وقت تک یہودیوں کے کھاتے میں منتقل ہوتی رہی جب تک یہودی اکثریت میں نہ ہو گئے۔ جیسے ہی ان کی آبادی کا تناسب مطلو بہ مقدار تک پہنچا تو انہوں نے مسلمانوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کرنا شروع کر دیا اور وہ دولت مسلمانوں کے کچھ کام نہ آئی جو بزعمِ خود انہوں نے یہودی سرمایہ داروں سے اینٹھی تھی۔
لارڈ رچرڈ جب مرا تو اس کی دستاویزات سے ”عظیم تر اسرائیل” کا نقشہ برآمد ہوا۔ صہیونیت کے پانچ مشہور عزائم ہیں: 1۔ فلسطین کی سرزمین پر تمام دنیا کے یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانا۔ 2۔ یروشلم کو صہیونی سلطنت کا دار الخلافہ بنانا۔ 3۔ تمام مسلم ممالک کو نسلی، لسانی، گروہی تصادم کے نتیجے میں توڑ کر مسلم اور غیر مسلم باشندوں کو اکٹھا کر کے چھوٹی چھوٹی ریاست بنانا۔ 4۔ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا۔ 5۔ گریٹر اسرائیل کا قیام، یعنی فلسطین کے بعد شام، لبنان، اردن، کویت، عراق، سعودیہ عرب، مصر اور ترکی کے کچھ حصوص پر مشتمل عظیم تر صہیونی ریاست کی تشکیل جو مسیح منتظر و موعود یعنی دجالِ اکبر کے شایانِ شان ہو۔ آج بھی اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ جلی حروف میں کندہ ہے: ”اے اسرائیل! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔” اس بات کا اعلان دو دن پہلے نیتن یاہو نے کیا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ کیا ہے؟ صہیونی کچھ بھی کر لیں، یہ اٹل حقیقت ہے کہ دجالِ اکبر اس کائنات کا آخری عظیم ترین فتنہ ہو گا، جس کی سرکوبی کے لیے بڑی جنگ سرزمینِ فلسطین پر لڑی جائے گی اور اس میں کامیابی مسلمانوں کو ہوگی۔