اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے خصوصی نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق الیکشن کمیشن کا کل اور آج سپریم کورٹ کے حکم پر عملد رآمد کے سلسلے میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ عملدرآمد کے حوالے کسی قسم کی مشکل ہو تو مزید رہنمائی کے لیے فوری طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو مسلسل بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے تنقید کو مسترد کردیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کمیشن سےاستعفیٰ دینے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔کمیشن کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرارنہیں دیا۔ جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی لیکن فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کے نتیجے میں الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بیٹ کا نشان واپس لیا گیا لہذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق جن 39 ارکان اسمبلی کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور ڈکلئیریشن ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جوکہ ان امیدواروں نے جمع نہیں کروایا تھا۔ اس لیے ریٹرننگ افسروں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار تسلیم کرتے۔
بیان کے مطابق جن 41 امیدواروں کو آزاد ڈکلئیر کیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ ہی پارٹی سے وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا لہذا ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ ۔ الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت ان ارکان اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی۔ سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی۔ پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔