پاکستان کا بینکنگ سسٹم خطے کے ممالک سے پیچھے قرار

کراچی: پاکستان کا بینکنگ سیکٹر خطے کے ممالک سے پیچھے رہ گیا۔

پاکستان میں بینکنگ سیکٹر نے ڈپازٹس اور سرمایہ کاری کے حساب سے گزشتہ پانچ سالوں میں بہت ترقی کی ہے، لیکن جب ترجیحی سیکٹرز جیسا کہ ایس ایم ای اور زراعت کے حوالے سے خطے کے ہم پلہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت پیچھے نظر آتا ہے، ناقص بینکنگ سسٹم اس کی وضاحت کرتا ہے کہ ہائی انفلیشن کے باجود پاکستان کا بینکنگ سیکٹر خطے کے ممالک سے پیچھے کیوں ہے؟

اے ایف فرگوسن نے ’’نیویگیشن دی فیوچر آف اپرچونٹیز اینڈ چیلنجز ‘‘ نامی اپنی رپورٹ میں اس حوالے سے بتایا ہے کہ نجی شعبے کو بینکوں کی جانب سے دیا گیا قرضہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 15 فیصد رہا، جبکہ خطے کے بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت اور کینیا جیسے ممالک میں یہ شرح 32 سے39 فیصد رہی۔

اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ( ایس ایم ایز) کو قرضوں کی شرح 8 فیصد سے کم رہی جبکہ یہ قرضے بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور بھارت میں 18سے 21فیصد تک رہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس ایم ایز کو قرضوں کی شرح 2022 میں کم ہو کر 4.2 فیصد رہ گئی، جو کہ 2020 میں 9.3 فیصد تھی۔

اسی طرح ذرعی شعبے کو قرض کی فراہمی 2022 میں کم ہو کر 3.6 فیصد رہ گئی، جو 2010 میں 4.6 فیصد تھی، گردشی نقدی 39 فیصد کے ساتھ بلند رہی، جو کہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے، یہ ریشو کینیا، بنگلہ دیش اور بھارت میں 9سے 17فیصد تک ہے، اس وقت پاکستان میں زیر گردش نقدی کا حجم 7.69 ٹریلین روپے ہے، جو کہ 2017 کے 3.93 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 96 فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان میں نقد لین دین کی شرح 27 فیصد ہے جو کہ سنگاپور، تھائی لینڈ اور بھارت میں ایک فیصد سے بھی کم ہے، الیکٹرانک فنانشل ٹرانزیکشن کی شرح 73 فیصد ہے جو کہ سنگاپور، تھائی لینڈ اور بھارت میں99 فیصد ہے۔