پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رجسٹرار سپریم کورٹ کے وارنٹ جاری کرنے کا انتباہ

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا عندیہ دے دیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے مالی سال 2010-11 سے مالی سال 2020-21 کے حسابات کا جائزہ لیا گیا۔

دوران اجلاس چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہیں آئے۔ کمیٹی کے رکن شیخ روحل اصغر نے کہا کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہیں آئے اور سپلیمنٹری گرانٹس پر کون جواب دے گا؟ سپریم کورٹ کی گرانٹس میں کمی کر دی جائے۔

نور عالم خان نے کہا کہ پی اے سی کوئی کام قانون سے باہر نہیں کر سکتی، 95 پیراز بنے تھے جس میں سے 12 سیٹل ہوئے اور 83 سیٹل نہیں ہوئے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان نے دوران اجلاس پی اے سی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ فل کورٹ کا ایک فیصلہ تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ پیش نہیں ہوں گے۔ اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کیا یہ خلاف قانون نہیں ہے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ اُس فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ معلومات نہیں دیں گے۔ اس پر نور عالم خان نے کہا کہ جب ڈیم فنڈ اکاؤنٹ کھولا جا رہا تھا تو یہ کہا گیا کہ اس کا آڈٹ ہو سکے گا، ہم سپریم کورٹ سے کوئی غیر قانونی چیز نہیں مانگ رہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو بھی رقم سپریم کورٹ خرچ کرتی ہے آڈیٹر جنرل اس کا آڈٹ کرتا ہے، تفصیلات طلب کرنا پی اے سی اور دینا سپریم کورٹ رجسٹرار کی ذمہ داری ہے۔

نور عالم خان نے کہا کہ آڈٹ پیراز پر رجسٹرار کو جواب دہ ہونا ہے، وزارت خزانہ کی طرف سے فراہم کردہ تمام فنڈز کے بارے میں آڈٹ کے حوالے سے پوچھا جا سکتا ہے۔

دوران اجلاس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے طلب کرنے پر صدر، وزیراعظم، ججز اور وزرا کی تنخواہوں کی تفصیلات پیش کردی گئیں۔

آڈیٹر جنرل اجمل گوندل نے کہا کہ تمام سرکاری اداروں کا مکمل آڈٹ کرتے ہیں۔ پی اے سی کے رکن شیخ اصغر روحیل نے کہا کہ آپ نے کئی چیزیں پوچھی ہیں ان پر باری باری غور کریں، تنخواہوں کی تفصیلات تو ہیں مگر الاؤنسز کی تفصیلات مہیا نہیں کی گئیں اور ہمیں تو کبھی نہیں کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔

نور عالم خان نے کہا کہ ہم نے صرف سپریم کورٹ کی نہیں بلکہ تمام لوگوں کی مکمل تنخواہ اور سہولیات کی مکمل تفصیلات مانگی تھیں۔ رکن پی اے سی وجیہہ قمر نے کہا کہ ہماری عدالتیں علاقائی طور پر چھ میں سے پانچویں نمبر پر ہیں عالم طور پر 129 نمبر پر۔

نور عالم خان نے کہا کہ اگر انصاف والا ادارہ ایسا کرے گا تو باقی ادارے کیا کریں گے؟ میڈیا کو تمام معلومات فراہم کریں گے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ہم جن سرکاری لاجز میں رہتے ہیں ان کا کرایہ اور بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ رجسٹرار کے خط پر قانونی رائے لیں گے، اسٹیٹ بینک بھی اپنا آڈٹ کروانے کو تیار نہیں ہے۔ اجلاس میں موجود ڈاکٹر ملک مختار نے کہا کہ پہلے یہ طے کریں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اسپیشل اکاؤنٹ کھلوا سکتا ہے؟

نور عالم خان نے کہا کہ میں نے کئی بار رجسٹرار سپریم کورٹ کو اجلاس میں بلایا کیا اب ان کے وارنٹ نکالوں گا، رجسٹرار نے خط لکھ کر آنے سے انکار کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ رجسٹرار کو بلانے سے پہلے ان کو بتائیں کہ انہیں کیوں بلایا جا رہا ہے، ان سے جو معلومات درکار ہیں اور جو جوابات چاہیے ہیں ان کو پہلے آگاہ کیا جائے۔

نور عالم خان نے کہا کہ آئندہ اجلاس 23 مئی کو اگر رجسٹرار نہیں آئے تو ان کے سمن اور وارنٹ جاری کریں گے، اس معاملے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اٹھایا جائے گا، گورنر اسٹیٹ بینک بھی آڈٹ حکام کو مکمل معاملات فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔

انہوں ںے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں، جن ریٹائرڈ لوگوں نے 9 مئی کے مظاہروں میں شرکت کی ان کی پنشن روکنے کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کرتے ہیں۔

رکن پی اے سی مشاہد حسین سید نے کہا کہ کیا ہم کسی کی پنشن روکنے کا حکم دے سکتے ہیں؟ اس پر نور عالم خان نے کہا کہ یہ ہدایات صرف اینٹی اسٹیٹ کارروائیوں میں شرکت کرنے والوں کے لیے ہے، جو نوجوان اس کارروائی میں ملوث ہیں انہیں سرکاری نوکریاں نہ دی جائیں۔