افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کی قیادت میں ہونے والے علما کرام کے ایک اہم اجلاس نے ایک ایسی قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت کسی افغان شہری کو بیرونِ ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔
یہ اجلاس بدھ کے روز کابل میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے درجنوں علما نے شرکت کی۔اس اجتماع میں طالبان حکومت کے کئی اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے، جن میں سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی، وزارت امر بالمعروف کے سربراہ وزیر محمد خالد حنفی اور وزیرِ اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم شامل تھے۔ اجلاس کے اختتام پر پانچ نکات پر مشتمل دو صفحات کی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
بی بی سی کو موصول ہونے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے کسی بھی افغان شہری کو بیرون ملک عسکری سرگرمیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، اور اگر کوئی شخص اس ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ عمل شرعاً بھی درست نہیں ہوگا۔ قرارداد میں طالبان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک جا کر لڑنے والے افغان شہریوں کو مؤثر طور پر روکنے کے اقدامات کرے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کے مسلسل اصرار کے باوجود افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیاں روکنے میں ناکام رہے ہیں، اور اسی تناؤ کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ دوحہ، استنبول اور ریاض میں طالبان حکومت اور پاکستانی وفود کے درمیان مذاکرات کے متعدد ادوار میں بھی ٹی ٹی پی کے مسئلے پر کوئی جامع اتفاقِ رائے قائم نہ ہو سکا جس سے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات کریں، جبکہ افغان طالبان یہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے حوالے سے ایک واضح فتویٰ جاری کریں۔

