غزہ،موسلادھاربارشیں،ہزاروں خیمے تباہ،فائرنگ سے 3شہید،سینکڑوں گرفتار

غزہ/تل ابیب/جنیوا/پیرس:غزہ میں موسم سرما کے پہلے ہی طوفانی اسپیل نے بے گھر فلسطینیوں پر ایک اور آزمائش تھونپ دی ہے۔

بدھ کے روز شروع ہونے والے موسمیاتی نظام کی شدید بارشوں نے مہاجر کیمپوں میں لگے سینکڑوں خیموں کوتباہ کردیا جس سے ہزاروں خاندانوں کی پہلے سے تباہ حال زندگی مزید بے بسی اور اذیت میں ڈوب گئی۔

رات بھر برسنے والی موسلا دھار بارش نے خیموں کے وسیع علاقوں کو پانی میں ڈبودیا۔سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پانی بے رحم انداز میں عارضی پناہ گاہوں کے اندر گھس کر بے گھر فلسطینیوں کا تھوڑا بہت بچا سامان بھی برباد کر رہا ہے۔

اندازوں کے مطابق غزہ کو کم از کم تین لاکھ خیموں اور قبل از تعمیر رہائشی یونٹس کی ضرورت ہے تاکہ تباہ شدہ خطے کے لوگوں کو عارضی طور پر ہی سہی مگر کوئی بنیادی پناہ میسر آ سکے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے گذشتہ دو برسوں سے جاری جنگ نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تقریباً مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔

حکومتی میڈیا آفس نے خبردار کیا کہ قطبی طوفان ”بیرون” غزہ کے لیے شدید خطرات لایا ہے۔ توقع ہے کہ خطے میں انتہائی تیز بارشیں، سیلابی ریلے،آندھیاں بلند لہریں اور گرج چمک کے ساتھ طوفانی جھکڑ چلیں گے جو بے گھر خاندانوں کے خیمے اکھاڑ سکتے ہیں۔

ترجمان نے واضح کیا کہ یہ صورتحال ایسی موسمی تباہ کاریوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جو ان دسیوں ہزار فلسطینی خاندانوں کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں جو خیموں اور کچی پناہ گاہوں میں اس ظالمانہ جنگ کے بعد زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ پناہ گاہیں نہ سردی روک سکتی ہیں نہ بارش اور آندھیوں کے عذاب سے بچا سکتی ہیں۔

غزہ میں سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے کہا کہ گہرا موسمی دباؤ خطے کو ”ناقابلِ تصور” خطرات میں دھکیل سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ نے جس خطے کو کھنڈر بنا دیا ہے وہاں اس طرح کا موسمی دباؤ زندگی کو دوبارہ کچل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہزاروں جانیں پہلے ہی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئیں اور باقی ماندہ زندگی بھی مکمل انہدام کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ادھرقابض اسرائیلی فوج کمزور اور نازک سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔طبی ذرائع نے بتایا کہ ہسپتالوں میں 3 شہداء کی میتیں لائی گئیں جن میں ایک خاتون اور ایک بچہ بھی شامل ہے جبکہ 5 دیگر فلسطینی زخمی حالت میں پہنچے۔

یہ واقعات تازہ فوجی کشیدگی کے بیچ غزہ کے شہریوں کی بڑھتی ہوئی اذیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔صحافتی ذرائع نے واضح کیا کہ ایک فلسطینی نوجوان کو جبالیہ کیمپ کے قریب نام نہاد ” یلو لائن ” کے پاس اسرائیلی ٹینکوں نے کچل کر شہید کر دیا۔

اسی طرح جبالیہ شہر کے مشرق میں قابض اسرائیلی فوج کی رافعات سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں ایک مرد اور ایک خاتون شہید جبکہ تیسرا فلسطینی زخمی ہو گیا۔ شمالی غزہ کے حلاوہ کیمپ کے اطراف یہ فائرنگ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔

مشرقی خان یونس کے علاقے بنی سہیلہ میں قابض اسرائیلی توپ خانے کی گولہ باری سے دو فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ وسطی غزہ میں البریج کیمپ کے مشرق میں ایک بچے کو اسرائیلی ڈرون نے گولی مار کر زخمی کر دیا۔

دوسری جانب فلسطینی سول ڈیفنس نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور ”اوچا” کے تعاون سے شمالی غزہ کے علاقے الواحہ سے ایک شہید کی نعش نکال کر الشفاء ہسپتال منتقل کی جہاں اسے اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔

وزارت کے مطابق 10 اکتوبر 2025ء سے قابض اسرائیل کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں میں اب تک 379 فلسطینی شہید اور 992 زخمی ہوئے جبکہ 627 شہداء کی نعشیں ملبے اور ویران علاقوں سے نکالی گئیں۔

وزارت اوقاف اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے مطابق غزہ کے ہزاروں مقابر ٹینکوں،بلڈوزروں اور فضائی بمباری سے مسمار یا بدترین انداز میں روند دیے گئے۔دستیاب سیٹلائٹ تصاویر بتاتی ہیں کہ کم از کم سولہ مرکزی قبرستان شدید تباہی سے دوچار ہوئے جن میں تاریخی دفن گاہیں، بین الاقوامی اہمیت کی قبریں، پناہ گزین کیمپوں کے قبرستان اور گنجان آباد رہائشی علاقوں کی دفن گاہیں شامل ہیں۔

ادھرقابض اسرائیلی فوج نے بدھ کی صبح غرب اردن کے مختلف علاقوں میں سفاکانہ دھائوں اور گرفتاریوں کی بڑی مہم چلائی جس کے دوران شہریوں پر تشدد، ہراسانی اور گھروں کی اندھادھند تلاشی کی کارروائیاں شامل تھیں۔

نابلس میں قابض اسرائیلی فوج نے راس العین کے علاقے پر دھاوا بول کر کئی گھنٹوں تک گھر گھر تلاشی لی،آنسو گیس کے گولے پھینکے اور سترہ فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت حسن الصفدی، براء دویقات، فضل دویقات، حامد ابو سلیم، موس المدفع، صدقی العقاد، حسن تفاحہ، سیعد بلال، عمر ابو شلال، عمر جبرینی، معاذ عاشور، نضال ابو رمیلہ،ایوب دویقات، عبد الرحمن عکوبہ، احمد دویقات،بسام البسطامی اور بشار الزغلول کے ناموں سے کی گئی ۔

بدھ ہی کے روز قابض اسرائیلی فوج نے جنوبی مشرقی بیت لحم کے قصبے تقوع میں بھی دھاوا بول کر ایک فلسطینی شہری کو گرفتار کیا۔سلواد قصبے شمال مشرق رام اللہ میں قابض اسرائیلی فوج نے کم از کم چوبیس فلسطینیوں کو گرفتار کیا ۔

دوسری جانب ہزاروں فلسطینی بچوں کو غزہ میں جنگ بندی کے دو ماہ بعد بھی بدترین غذائی قلت کا سامنا ہے۔ کیونکہ 10 اکتوبر سے جاری جنگ بندی کے باوجود ابھی تک غزہ میں انسانی بنیادوں پر خوراک اور امداد بآسانی دیگر فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ بچوں تک پہنچنا بھی ممکن نہیں ہو سکا۔

یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بتائی ۔یونیسیف کے مطابق اب تک 9300 ایسے فلسطینی بچوں کو علاج کی سہولت دی گئی ہے جو غذائی قلت کی وجہ سے سنگین بیماریوں میں گھر چکے تھے اور یہ صورتحال 10 اکتوبر کو شروع کی گئی جنگ بندی کے بعد پہلے مرحلے میں دیکھی گئی تاہم ماہ اگست تک یہ تعداد 14000 کو چھو چکی تھی۔

یونیسیف کی ترجمان ٹیس انگرام نے جنیوا میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا اس وقت بھی غزہ کے فلسطینی بچوں کی حالت زار بہت اونچے اعداد و شمار کے ساتھ ہے۔حالیہ مہینوں میں جن بچوں کو غذائی قلت کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل کرانا پڑا یہ تعداد ماہ فروری کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

نومولود بچوں کا وزن بھی انتہائی کم ہونا غذائی قلت کا شاخسانہ ہے جس کا سامنا ان کی ماں کو بھی درپیش ہے۔علاوہ ازیں عالمی دبائو بڑھنے کے بعد اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اردن کے ساتھ واقع ایلینبی کراسنگ کو غزہ کیلئے انسانی امداد اور تجارتی سامان کی ترسیل کیلئے دوبارہ کھول رہا ہے۔

یہ کراسنگ 23 ستمبر سے بند تھی، تاہم اب اسے اب کھولا جا رہا ہے جبکہ حماس نے خبردار کیا ہے کہ جب تک اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزیاں جاری ہیں غزہ میں جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

غیرملکی میڈیارپورٹ کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی حکام کے مطابق بارڈر کھلنے کے بعد ڈرائیورز اور کارگو ٹرکس کی سخت اسکریننگ کی جائے گی جبکہ اضافی سیکورٹی اہلکار بھی تعینات کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جاسکے۔

دوسری جانب حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیلی افواج غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری رکھتی ہیں تو موجودہ جنگ بندی معاہدہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ حماس نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے سے قبل اسرائیلی فوج کی خلاف ورزیوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

حماس کے سیاسی شعبے کے رکن حسام بدران نے کہاکہ جب تک قابض قوت (اسرائیل) معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہے گی۔اپنے وعدوں سے بچنے کی کوشش کرے گی، جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع نہیں ہوسکتا۔بدران کے مطابق حماس نے ثالثی کرنے والے ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیل پر پہلے مرحلے کی مکمل تکمیل کے لیے دبا بڑھائیں۔

صحافتی تنظیم رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز(آر ایس ایف)نے کہا ہے کہ اس سال تمام دنیا میں ہلاک شدہ تقریباً نصف صحافیوں کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے اور غزہ میں اس کی افواج کے ہاتھوں 29 فلسطینی صحافی ہلاک ہوئے۔

پیرس میں قائم میڈیا کی آزادی کی وکالت کرنے والے گروپ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ اس سال عالمی سطح پر ہلاک شدہ صحافیوں کی کل تعداد 67 تک پہنچ گئی جبکہ 2024ء میں 66 صحافیوں کا قتل ہوا۔

آر ایس ایف نے دسمبر 2024ء سے اب تک 12 ماہ کے دوران ہونے والی اموات کو ایک رپورٹ میں دستاویز بند کیا ہے جس کے مطابق کل اموات کے 43 فیصد حصے کی ذمہ دار اسرائیلی افواج ہیں۔ یہ اعداد و شمار انہیں صحافیوں کا بدترین دشمن ثابت کرتے ہیں۔

ان میں مہلک ترین واحد حملہ 25 اگست کو جنوبی غزہ کے ایک ہسپتال پر ہونے والا نام نہاد دوہرا حملہ تھا جس میں بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوںکے دو معاونین سمیت پانچ صحافی ہلاک ہوئے۔

ایک نئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ کی رابطہ کاری کے لیے نئے قائم کردہ مرکز پر امریکی فوجی اور اتحادی اسرائیلی کارندوں کی نگرانی میں ہیں جس سے وہاں موجود امریکی افواج میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے۔ اسرائیل میں سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر (سی ایم سی سی)میں موجود افواج وسیع پیمانے پر اسرائیلی نگرانی میں ہیں۔

یہ مشترکہ فوجی مرکز اکتوبر میں صدر ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کی نگرانی کے لیے قائم کیا تھا۔رپورٹ میں ان ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں ملاقاتوں اور گفتگو کی خفیہ اور اعلانیہ ریکارڈنگ کے بارے میں تنازعات پر بریفنگ دی گئی ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا، سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے حجم سے مرکز کے امریکی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل پیٹرک فرینک کو ترغیب ملی کہ وہ ایک اسرائیلی ہم منصب کو ملاقات کے لیے طلب کر کے بتاتے کہ ”ریکارڈنگ کو یہیں روکنا ہو گا”۔

اس میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ نہ صرف وہاں موجود امریکی افواج بلکہ عملے اور دوسرے ممالک کے مہمانوں نے بھی اٹھایا جنہوں نے سی ایم سی سی کے اندر اسرائیل کی ریکارڈنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادھرحماس کے سینئر رہنما اور خارجہ امور کے سربراہ خالد مشعل نے ایک حالیہ انٹرویو میں اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی معاہدے کے مستقبل پر کھل کر گفتگو کی ہے۔الجزیرہ عربی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ ناقابل قبول ہے کیوں یہ تنظیم کی روح نکالنے جیسا ہے۔

خالد مشعل نے مزید کہا کہ البتہ حماس غزہ سے اسرائیل پر مستقبل میں حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات پر آمادہ ہے جس کے لیے اسرائیلی اقدامات کو دیکھنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزیاں نہیں روکے گا جنگ بندی کے اگلے مراحل پر پیش رفت ممکن نہیں ہوسکے گی۔

خالد مشعل نے یہ بھی واضح کیا کہ حماس غزہ میں کسی بھی ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی جس میں فلسطینیوں کی نمائندگی نہ ہو۔