غزہ کے حوالے سے ٹرمپ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کی غزہ پر صہیونی حملے جاری ہیں، جن میں متعدد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ سٹی، رفح سمیت مختلف علاقوں پر کم از کم بیس فضائی حملے کیے گئے جبکہ ٹینکوں، توپ خانے اور بحری جہازوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ جنگ بندی کے بعد اب تک اسرائیلی حملوں میں چار سو سے زیادہ افراد شہید اور ایک ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا اور رفح کراسنگ کے حوالے سے ایک نیا تنازع جان بوجھ کر کھڑا کر دیا ہے۔حماس کے بعد مسلم عرب ممالک نے بھی اسرائیلی اقدامات کے خلاف کھل کر ردعمل دینا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل امن معاہدے میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگا ہے، جس کے باعث خدشہ ہے کہ غزہ امن معاہدہ شاید ختم ہو جائے۔ حماس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنا قبضہ ختم کر دے تو وہ اقوام متحدہ کی افواج کی تعیناتی قبول کرنے پر تیار ہیں، تاکہ ایک علیحدگی فورس سرحدوں کی نگرانی کرے اور جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائے۔
حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے ہتھیار جارحیت کا ردعمل ہیں، اگر اسرائیلی قبضہ ختم ہو جائے تو یہ ہتھیار ریاست کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے اس بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کو مسترد کیا جس کا مقصد صرف حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔ اسی ماحول کو دیکھتے ہوئے قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوحہ فورم میں ان کا کہنا تھا کہ ثالثین جنگ بندی کے اگلے مرحلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک مکمل پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان کے مطابق جو کچھ ہوا ہے وہ جنگ بندی نہیں بلکہ ایک عارضی وقفہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کے بغیر جنگ بندی مکمل نہیں ہو سکتی۔امریکی اتحادی مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے بھی کہا کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس قیامِ امن کے لیے ہونی چاہیے، نہ کہ امن مسلط کرنے کے لیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فورس کی موجودگی اس لیے ہو کہ فریقین جنگ بندی کی پاسداری کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں ہتھیاروں پر پابندی ہو اور رفح کراسنگ امداد اور مریضوں کے لیے مسلسل کھلی رہے۔
اس حوالے سے پہلی بار عرب و مسلم ممالک نے اسرائیل کے یکطرفہ منصوبے کو مسترد کر دیا ہے جس میں رفح کراسنگ کو صرف خروج کے راستے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ مصر، قطر سمیت آٹھ ممالک نے مشترکہ بیان میں خبردار کیا کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ COGAT کی جانب سے کراسنگ کو یکطرفہ کھولنے کے اعلان کو بھی مسلم ممالک نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹرمپ امن منصوبے کے بیس نکات پر فوری اور مکمل عمل درآمد کیا جائے اور رفح کو دونوں سمتوں میں کھولا جائے۔دوحہ کانفرنس میں حماس کے رہنما خالد مشعل نے پوری صراحت کے ساتھ اور دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام آزادی اور خودمختاری کے اپنے بنیادی انسانی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے،اس مطالبے کو تسلیم کیے بغیر فلسطینی مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور یہ کہ غزہ میں کوئی بھی ایسی فورس قبول نہیں کی جائے گی جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔
اس صورتِ حال میں امریکا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جبکہ غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔ دو ریاستی حل کے بعد اب امن معاہدہ بھی خطرے کی زد میں دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل جن عزائم کا کھلے عام اظہار کرتا آیا ہے، کیا وہ اب ان عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے قریب ہے؟ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ غزہ پلان کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے، بنیادی سوالات پیدا کرتا ہے۔ پہلا مرحلہ کیا تھا؟ اور دوسرا مرحلہ کیا ہوگا؟ لگتا ہے کہ امن فوج کی تعیناتی بھی اسی ابہام کا شکار ہے۔ کیا امن فوج کا مقصد صرف حماس کو غیر مسلح کرنا ہوگا؟ اور اگر ایسا نہیں تو پھر پیش رفت رکی کیوں ہوئی ہے؟
آنے والے دن غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں دونوں کے لیے مزید امتحانات لائیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں امن کا تعلق ہمیشہ فلسطین سے جڑا رہا ہے، لیکن عالمی طاقتوں کی موجودہ خاموشی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ حالات فلسطینیوں کے حق میں نہیں جا رہے۔
دنیا کے وہ ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار کہلاتے ہیں، وہ بھی خاموش ہیں۔ میڈیا کی توجہ بھی ہٹ چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی غزہ پلان کا پہلا مرحلہ تھا، اور کیا اس کے بعد ایک مزید سنگین مرحلہ شروع ہونے والا ہے؟ غزہ کے بے بس شہری جنگ بندی کے بعد بھی ظلم، محاصرے اور حملوں کا نشانہ ہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والا وقت خطے میں ایک نئے بحران کی بنیاد رکھ دے، جس کا دائرہ غزہ سے نکل کر پورے مشرق وسطیٰ تک پھیل جائے۔

