خوارج دین کے محافظ یا جان کے قاتل؟

بس بہت ہوگیا،پاکستانی قوم اب اپنی سرزمین میں خون کی ہولی دیکھنے کو تیار نہیں۔ وطن عزیز کی فریاد ہے کہ خاموشی اب جرم بن چکی ہے۔ چند ایسے نام نہاد دین کے ٹھیکیدار، جن کا اخلاص حماقت زدہ ہے، جنہوں نے نفاذِ شریعت کے بلند و بانگ نعرے اپنی زبان پر سجا رکھے ہیں، نے اپنے ہاتھوں کو وطن کے پاسبانوں، معصوم جوانوں، عورتوں اور بچوں کے خون سے رنگ دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر ظلم کو جائز ٹھہراتے ہیں، حالانکہ دین نے خود ظلم کے ہر روپ کومسترد ہے۔ انہیں علماء خوارج اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں خوارج کی بہت سی صفات پائی جاتی ہیں۔ پہلے دور کے خوارج جلیل القدر صحابہ کرام کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے سمجھتے تھے اور آج کے خوارج ملت کے جید علماء کرام کو راہ راست سے بھٹکے ہوئے سمجھتے ہیں۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں ان کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ وہی وحشی لوگ ہیں جنہوں نے صحابی رسول عبداللہ بن خباب کو ذبح اور ان کی حاملہ اہلیہ کا پیٹ چاک کر کے قتل کیا تھا، فقط اس لیے کہ ان کے پوچھنے پر انہوں نے خلفاء راشدین کے بارے میں خیر و بھلائی کے کلمات کہے۔

آج پھر امت کو خوارجی فکر کا سامنا ہے۔اس کا مقابلہ کرنا سنت صحابہ اور سنت خلفاء راشدین ہے۔ دینی مدارس نے معاشرے میں اسلامیت کی جو شمع جلائے رکھی ہے، وہ اس شمع کو بجھنے سے بچا سکتے ہیں اگر وہ اپنے فرض کا احساس رکھیں۔ دو ہی راستے ہیں۔مدرسہ اور مولوی صرف کتابوں کے صفحات تک محدود رہ جائیں یا وہ وہ چراغ بنیں جو فتنہ کے سیاہ بادلوں کو چیر کر روشنی پہنچائیں۔ ہماری نظر میں تو انتخاب واضح ہے کہ مدارس کو روشنی کے مینار بن کر ہر فتنہ کو خوب کھول کر واضح کرنا چاہیے۔ قرآن ہمیں بارہا انسانی جان کی حرمت سکھاتا ہے۔ ایک جان بچانے کو پوری انسانیت بچانے کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ اس پرفتن موقع پر ہمیں یہ بات بارہا دہرانے کی ضرورت ہے کہ دینِ اسلام نے خونِ بے گناہ کو کسی قیمت پر قبول نہیں کیا۔ موجودہ خوارج جو کلمۂ حق کو اپنے باطل مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ، وہ دراصل اسلام کو شہر میں بدنام کر رہے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مذہب کا محافظ وہ نہیں ہوتا جو بے گناہ انسانی جانوں کا قاتل ہو، بلکہ حقیقی محافظ وہ ہے جو رحم، عدل اور انصاف کے پیمانے پر کھڑا ہو۔

معزز ارباب مدارس!علماء کرام وہ ہستیاں ہیں جو امت کے ضمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ کی زبان میں طاقت ہے۔ آپ کے الفاظ لوگوں کے ضمیروں کو جگاتے ہیں، ان کے دلوں کو نرم کرتے ہیں۔ جب آپ خاموش رہتے ہیں تو سناٹے میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور جب آپ کھل کر بولتے ہیں، تو وہ صدائیں دور تک پہنچتی ہیں۔ اس لیے آج جو علماء حق و انصاف کی بنیادوں پر کھل کر ان گروہوں کی مذمت کریں گے، وہ نہ صرف دینی ذمہ داری نبھا رہے ہوں گے بلکہ ایک قوم کے وجود کو بچانے میں شریک ہوں گے۔ جو آزادی دین و مذہب اور مدارس کو پاکستان میں حاصل ہے شاید ہی کسی اور ملک میں موجود ہو۔ اس کی قدر کرتے ہوئے دین اسلام کی روشن تعلیمات درست تشریح کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو خوارج اپنے برے کردار کے ذریعہ اسلام کے روشن چہرہ کو داغدار کرتے رہیں گے اور یوں پورے دینی مدارس کے حوالے سے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہیں گے، کیونکہ پڑھے تو وہ انہی مدارس میں ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ فتنہ ہمیشہ اندر سے پھوٹتا ہے۔ غربت، ناامیدی، کم علمی، کج فہمی، غلط فہمی اور احساسِ بیگانگی اس کے درخت کو جڑ پکڑنے دیتے ہیں۔ اس لیے مدارس کو صرف مسائلِ عبادت سکھانے والے مراکز نہیں رہنا چاہیے، انہیں شہری ذمہ داری، اخلاقی سوچ، اور قانون و آئین کے احترام کا پیغام بھی دینا ہوگا۔ نصاب میں ایسے مضامین شامل کریں جن میں نوجوانوں کو بتایا جائے کہ اختلافات کا حل مکالمہ، دلیل اور آئینی طریقوں سے ہوتا ہے۔ دین کے نام پر بندوق اٹھانا یا کسی کو تکفیر کی سفید پٹی باندھ کر قتل کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ مدارس میں بیانیوں کی صفائی ایک قومی عمل ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے بچوں، ہماری قوم اور ہمارے مستقبل کی حفاظت ہے۔ جب طالبِ علم کسی مسجد کی خاموشی میں حدیث پڑھے تو وہ یہ بھی سمجھے کہ رحم کا تقاضا کیا ہے، جب وہ فقہی مسائل پر غور کرے تو وہ جان لے کہ حکمران کے خلاف اختلاف کا حل تشدد نہیں بلکہ ثبوت، دلیل اور آئینی جدوجہد ہے۔ مدارس اگر اسی روشنی کو فروغ دیں تو ایک پورا معاشرہ انتہا پسندی کے خلاف مضبوط ہو جائے گا۔ موجودہ فتنے کے حوالے سے قرآن وحدیث کی روشنی میں آگہی پھیلانے میں علماء جتنی دیر کریں گے اتنا ہی یہ تخم ارض پاک پر پھلتا پھولتا رہے گا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس پاکستان میں جئیں گے؟ کیا ہم اس ملک کی تمثیل بنائیں گے جہاں مذہب رحمت، عدل اور علم کا سرچشمہ ہو، یا اس ملک کو خون میں لت پت ہو جانے دیں گے؟ مدارس کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کو وہ تعلیم دیں جو عقل و دل دونوں کو جگا دے، علماء کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز سے عدالت اور رحم کی وکالت کریں، عوام کو چاہیے کہ وہ خاموشی توڑ کر امن کی فریاد کریں۔ اگر کوئی شخص یا گروہ تشدد پر اکساتا ہے یا خوف پھیلا رہا ہے تو اس کی مخالفت اخلاقی فرض ہے۔ خاموشی ایسے وقت میں جرم بن جاتی ہے جب وہ رضامندی کے مترادف بن جائے۔ دولت، مقام، یا خوف کی وجہ سے جو چپ ہیں، وہ سوچیں کہ ان کی خاموشی کس قدر معصوم جانوں کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا کردار بھی واضح ہے کہ وہ ملک کے جید علماء کرام کو اعتماد میں ے کر معاشرے میں ہمہ جہت اصلاحات پر کام کریں۔

اس حساس وقت میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم آج نہ بولیں تو کل کا حساب زیادہ بھاری ہوگا۔ تاریخ ہمیں وہ قومیں بھی دکھاتی ہے جو وقت پر جاگیں اور وہ قومیں بھی جن کو غفلت کی نیند میں پڑے رہنے کی وجہ سے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ خدا کرے کہ ہمارے علمائ، ہمارے مدارس، اور ہمارا معاشرہ مل کر اس ملک کو وہ شمع دیں جس کی روشنی نہ صرف ہمارے گھروں کو روشن کرے بلکہ دنیا کو بھی دکھا دے کہ اسلام امن، محبت اور انسانی وقار کا دین ہے۔ بولیں، ابہام دور کریں، شعور پھیلائیں۔ علم کے ساتھ، ہمدردی کے ساتھ، قانون کے ساتھ۔ یہی راستہ امن کا ہے، یہی راستہ دین کی سچی خدمت کا ہے۔