خیبر پختونخوا کا نیا وزیر اعلیٰ کون ہوگا، 4امیدوار میدان میں، پی ٹی آئی کی حکمت عملی تیار

خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس پیر کو ہوگا ایجنڈے میں وزیراعلیٰ کا انتخاب شامل ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس 13 کتوبر کو صبح 10 بجے ہوگا اور اجلاس کے ایجنڈے میں وزیراعلیٰ کا انتخاب شامل ہے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا طریقہ کار بھی جاری کردیا گیا، وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے ووٹنگ 13 اکتوبر کو ہوگی۔

خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور مستعفی ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا جبکہ ان کی جگہ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی انتخاب کے سلسلے میں تحریک انصاف نے اپنے 80 ارکان کو وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پابند کر دیا۔ذرائع کے مطابق 80 سے زیادہ پی ٹی ارکان اسمبلی کو سی ایم ہاؤس میں ٹھہرایا گیا ہے، 5 سے 10 ایم پی ایز گھروں کو جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے ارکان کو سی ایم ہاؤس میں ٹھہرایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایم پی ایز پر غیر ضروری کالز اٹھانے پر پابندی عائد ہے۔پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اسد قیصر، جنید اکبر ،سلمان اکرام راجہ سمیت دیگر پارٹی رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور غیر آئینی اقدام پر احتجاج کی حکمت عملی بھی تیار کی گئی۔

خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل مکمل ہوگیا، جہاں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے، جنہیں منظور کرلیا گیا۔مقررہ وقت ختم ہونے تک چاروں جماعتوں کے امیدواروں نے باقاعدہ طور پر کاغذات سیکریٹری خیبرپختونخوا اسمبلی کے پاس جمع کرائے۔تحریک انصاف کی نمائندگی سہیل آفریدی، مسلم لیگ ن کی سردار شاہ جہاں یوسف، جے یو آئی کی مولانا لطف الرحمان اور پیپلز پارٹی کی ارباب زرک نے کی۔

عوامی نیشنل پارٹی نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان احسان اللہ نے واضح کیاکہ اے این پی نہ تو کسی ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بنے گی اور نہ ہی پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کی حمایت کرے گی۔اسی دوران وزیراعلی کے استعفے کی منظوری سے متعلق معاملہ ایک نئے تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ جب تک گورنر علی امین گنڈاپور کا استعفا باضابطہ طور پر منظور نہیں کرتے، نیا وزیراعلی منتخب کرنے کا عمل آئینی طور پر مشکوک رہے گا۔

جمعیت علما اسلام کے پارلیمانی لیڈر اور وزیراعلی کے امیدوار مولانا لطف الرحمان کا کہنا ہے کہ گورنر کی جانب سے استعفا منظور نہ کیے جانے کے باوجود اپوزیشن اپنا امیدوار لانے کے جمہوری حق سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔دوسری طرف وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما امیر مقام نے موقف اختیار کیاکہ گورنر نے استعفا وصول کرلیا ہے اور اسے آئینی تقاضوں کے مطابق پراسس کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس معاملے کو خود متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک وزیراعلی کے استعفے کا عمل مکمل نہیں ہوا تو نئے وزیراعلی کے انتخاب کا قانونی جواز بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

پشاور میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے بعد حکومتی نامزد وزیر اعلی سہیل آفریدی نے میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پالیسی پارٹی چیئرمین کی ہدایت کے مطابق ہے اور وہ اپنا پالیسی بیان صوبائی اسمبلی کے فلور پر پیش کریں گے۔سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کا انتخاب آئین کے مطابق ہو رہا ہے، اس عمل میں باہر سے کسی کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔