رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضے کی تیاری کے آخری مرحلے کا آغاز منگل سے شروع کرتے ہوئے ساٹھ ہزار ریزرو فوجیوں کو باضابطہ طور پر تربیت کے لیے مدعو کردیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ان اہلکاروں کو غزہ کی محصور پٹی میں تعینات کرنا ہے۔
اسرائیلی فوج نے منگل کے روز تقریباً 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو متحرک کرنا شروع کردیا ہے تاکہ غزہ شہر پر قبضے کی تیاری کی جاسکے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے سیاسی و سلامتی کابینہ کے اجلاس میں خبردار کیا کہ غزہ پر قبضے کی منصوبہ بندی عملاً وہاں ایک فوجی حکومت کے قیام کا باعث بنے گی۔ عبرانی اخبار معاریف کے عسکری تجزیہ کار آوی اشنازی کے مطابق ریزرو فوجیوں کو تین سے چار روزہ تربیت اور تنظیمی مراحل سے گزارا جائے گا، جس کے بعد کچھ یونٹ شمالی محاذ پر تعینات فوجیوں کی جگہ لیں گے جبکہ بعض بریگیڈز غزہ کی لڑائی میں حصہ لیں گی اور دیگر بریگیڈز مغربی کنارے میں فوجی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے بھیجی جائیں گی۔
اشنازی کے مطابق توقع ہے صہیونی فوج جلد ہی غزہ شہر کے اردگرد بڑے پیمانے پر فوج جمع کرے گی تاکہ شہر کا محاصرہ کرکے زمینی کارروائی شروع کی جاسکے۔ اس وقت دو موبائل ڈویڑنز یعنی 99 اور 162 محاصرہ بندی کے عمل میں مصروف ہیں۔ فرقة 162 شمالی سمت سے غزہ کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ فرقة 99 کو حی الزیتون اور الصبرة پر قبضہ کرکے انہیں کلیئر کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ معاریف کے مطابق اسرائیلی فوج جنوبی مغربی حصے میں ایک راہداری کھولے گی تاکہ شہریوں کو غزہ سے المواصی اور جنوبی علاقے کی طرف نکالا جاسکے۔ کچھ آبادی کے انخلا کے بعد فوج کی تعیناتی کے مرحلے پر جائے گی جس میں زمینوں کی صفائی اور بلڈوزنگ شامل ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس بار گولہ باری کا طریقہ کار مختلف ہوگا کیونکہ فوج نے قیدیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے نئے حفاظتی معیارات طے کیے ہیں۔ تاہم صورتِ حال نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ غزہ ایک محدود رقبے پر کثیر آبادی والا شہری علاقہ ہے جس میں بلند و بالا عمارتیں موجود ہیں جو فوجی کارروائی کو مزید مشکل بناتی ہیں۔
عبرانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے پہلے ایک ایسا طریقہ کار اپنایا تھا جس کے تحت فائرنگ اور اہداف پر حملے کی اجازت صرف اس صورت میں دی جاتی تھی جب محفوظ حالات میسر ہوں اور اگر کسی جگہ قیدیوں کی موجودگی کی اطلاع ہو تو حملہ روک دیا جاتا تھا۔ تاہم اب نئے فیصلے کے تحت صرف اطلاع مل جانا کافی نہیں ہوگا بلکہ حملہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک اس بات کی مصدقہ معلومات نہ ہوں کہ اس علاقے میں کوئی قیدی موجود نہیں ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ صہیونی فوج نے توپ خانے کے استعمال کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب گولہ باری کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوگی۔اخبار معاریف کے مطابق توقع کی جا رہی تھی کہ لواء’ہاشمونائیم‘ کی بھرتی مہم کے دوران 120 سے 130 نئے فوجی شامل ہوں گے لیکن حقیقت میں صرف نصف کے قریب نوجوان شریک ہوئے۔ فوج کو امید ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں یہ خلا پُر کیا جائے گا اور اس یونٹ میں مزید دو بٹالین شامل کی جا سکیں گی۔رپورٹ کے مطابق دوسری بھرتی کے دوران بھی فوج کو مایوسی کا سامنا ہوا کیونکہ سخت گیر یہودی حلقوں حریدیم کے دباو¿ کے باعث نصف سے زیادہ نوجوانوں نے فوجی خدمت کو موخر یا منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔
پیر کے روز محض 50 نوجوان بھرتی ہوئے جبکہ فوج کو توقع تھی کہ یہ تعداد 120 سے زائد ہوگی۔اس کے باوجود فوجی حکام پُرامید ہیں کہ آئندہ دنوں میں مزید نوجوان بھرتی ہوں گے اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ چھ ماہ میں ’ناتان بٹالین‘ سمیت دو نئی یونٹس کا اضافہ کردیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ حریدی فوجیوں پر مشتمل ایک خصوصی دستہ بھی قائم کیا جا رہاہے۔
امریکی تعاون اور سرپرستی میں بے لگام صہیونی ریاست کی پیش قدمی کا سلسلہ صرف غزہ کی پٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے اعتراف کے جواب میں صہیونی قابض حکومت نے مغربی کنارے کے متعدد علاقوں پر قبضے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ تل ابیب مغربی کنارے کے کچھ حصے ضم کرنے پر غور کررہا ہے۔ یہ اقدام ان مغربی ممالک کے متوقع فیصلے کے جواب میں ہوگا جو اس ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے جارہے ہیں۔
امریکی چینل سی این این کے مطابق تین اسرائیلی حکام نے بتایا کہ ضم مغربی کنارے اسرائیل کے ردعمل میں شامل اقدامات میں سے ایک ہے جو کہ فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا، پرتگال اور برطانیہ کی جانب سے متوقع اعتراف کے جواب میں زیرِ غور ہے۔ یہ ممالک اُن 140 سے زائد ریاستوں میں شامل ہو جائیں گے جو پہلے ہی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکی ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے اس معاملے پر ابتدائی سطح پر مشاورت کی تاہم سکیورٹی کابینہ نے ابھی تک اس پر تفصیل سے بحث نہیں کی اور نہ ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا گیا ہے۔حکام کے مطابق نیتن یاہو مختلف سطحوں پر ضم کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔ اس میں محدود پیمانے پر چند یہودی بستیوں پر قبضہ شامل ہے جبکہ ایک بڑے منصوبے کے تحت پورے ”علاقے ۔ ج“ کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تجویز بھی زیرِغور ہے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے کے تقریباً 60 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967ءسے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں یہودی بستیاں قائم کر رکھی ہیں جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں تل ابیب اور فلسطینی تنظیمِ آزادی (PLO) کے درمیان ہونے والے اوسلو معاہدے کے تحت مغربی کنارے کو تین حصوں (ا)، (ب) اور (ج) میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں سے علاقہ (ج) مکمل طور پر اسرائیلی انتظامی اور سکیورٹی کنٹرول میں ہے۔
