سنہ 2000ء کے بعد پیدا ہونے والی جنریشن بدقسمتی سے اُس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی دہائی کی جنریشن کو ملی۔
ہم نے زندگی کے اصل رنگ اپنی آخری ہچکیاں لیتے ہوئے دیکھے اور انہیں الوداع کیا۔ ہم نے مٹی کے چولہوں پر کڑتی ہوئی چائے کا بہترین ذائقہ لیا اور مٹی کے برتنوں میں بنتے سالنوں کی مہک سے خود کو لطف اندوز کیا۔ ہم نے اسکول ڈیسک یا بنچ پر بیٹھ کر ساتھ والے بنچ پر اپنا بستا رکھ کر کہا کہ یہ جگہ میرے دوست کی ہے یہاں وہ بیٹھے گا۔ ہم نے نانی اور دادی سے وہ کہانیاں بھی سنی جن کے حصار میں جوانی تک مبتلا رہے۔ ہم نے دو دو روپے جمع کر کے گیندیں خریدی، شام دیر تک کرکٹ کھیلا اور گھر لیٹ آنے پر مار کھائی۔
آج محسوس ہوتا ہے کے کرکٹ میچ کے دوران کوئی ایک بڑا آکر ضرور کہتا تھا کہ مجھے صرف دو گیندیں کھیلنی ہیں چلا جاو¿ں گا، بہت چڑھ آتی تھی اس وقت مگر آج سمجھ آتی ہے کے وہ دو گیندیں کھیلنے والا کیوں ضد کیا کرتا تھا۔ ہم نے مہمانوں کی آمد پر جشن کا ماحول دیکھا گھر میں اور ان کے الوداع ہونے پر ان کی طرف سے محبت کے طور پر ملے دس روپیوں کو قارون کے خزانے کے برابر سمجھا۔ پھر مہمانوں کی پلیٹ میں بچے ہوئے بسکٹوں پر ہاتھ صاف کیا جس کا بعض اوقات ازالہ بھی کرنا پڑا۔کلاس روم سے ٹیچر کے ساتھ کاپیاں اٹھا کر سٹاف روم تک لے جانا اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ ٹیسٹ کے دوران ایک خالی پیج کے لیے کلاس میں بھیک مانگی۔ کبھی کبھار کسی کی کاپی ہاتھ لگی تو تین چار دن کی ٹیسٹوں کے لیے پیج نکال کر جیب میں ڈال دیے۔
ہم نے پڑوسیوں کے آئے ہوئے مہمانوں کو اپنے گھر لے آنے کو اپنا اعزاز سمجھا، جمعے والے دن بیگ میں آدھی کتابوں کو رکھتے وقت کی خوشی محسوس کی اور ہم نے آخری پیریڈ کے دوران چھٹی کے لیے بجتی ہوئی گھنٹی کے لیے وہ بیتابی کا مزہ لیا۔نوے فیصد لوگ ہو ہی نہیں سکتا کے کسی نے کلاس روم سے چاک چوری نہ کیا ہو یا گھر جاتے راستے میں آئے کسی پھلدار پودے پر پتھر مار کر پھل نہ کھائے ہوں۔ یہ الگ بات تھی کے اکثر اوقات پھلوں کے ساتھ مالکان کی طرف سے بہت کچھ سننے کو ملا مگر ہم نے پروا نہیں کی اور درگزر فرمایا اور دوسرے دن پھر روایت جاری رکھی ۔ہمارے اسکول دور میں امیر وہی سمجھا جاتا تھا جس کے پاس جیومیٹری بکس ہوتا تھا، پانی کے لیے ایک بوتل جو اکثر کاندھوں پر لٹکائی جاتی تھی اور جو ٹفن میں گھر سے کھانا لے آتا تھا، ہاں یہ الگ بات تھی کے ہمارے ہوتے ہوئے وہ کھانا اسے کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا تھا۔
گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن
پلٹ کے آ ، میں تجھ سے شرارتیں مانگوں
ٹیچر کی غیرحاضری کے لیے مانگی ہوئی دعا بہت کم ہی قبول ہوتی تھی، اکثر راہ سے واپس آجاتی تھی۔ فارغ پریڈ میں ہم اکثر اپنے اجداد کی بڑائی بیان کرتے ہوئے خود سے بنائے قصے سنایا کرتے تھے۔ ہماری امیدیں بہت ٹوٹی ہیں۔ اکثر رات کو ہوتی بارش میں سکون سے سوتے تھے کے کل صبح بارش ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جائیں گے مگر صبح اٹھتے ہی نکلی ہوئی ایسی دھوپ دیکھتے تھے اور ایسے دیکھتے جیسے کوئی معجزہ ہوگیا ہو۔ اس ٹوٹتی امید کا دکھ کسی ماتم کے دکھ سے کم نہیں ہوتا تھا۔ ہم راستے میں بیٹھتے تو بیگ جھولی میں رکھتے تھے نیچے نہیں ڈرتے تھے کے اس میں اسلامیات کی کتاب ہوتی ہے۔ ہم بازار میں کہیں اگر جاتے اور وہاں کسی ٹیچر پر نظر پڑھ جاتی تو واپس بھاگتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے تھے کہ بازار آئے کس لیے تھے۔
ہم نے گرمیوں کی دوپہر میں نیند نہ آنے کے باوجود بھی مجبوراً سونے کی ایکٹنگ کی جو کسی بڑی ازیت سے کم نہ ہوتی تھی۔ہم نے احترام دیکھا، خلوص محبت بھائی چارہ اور ہمدردی دیکھی۔ ہم نے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ دعوے اور رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہم نے کچے گھروں پر گرتی ہوئی بارش کے پہلے قطروں سے مٹی سے اٹھتی ہوئی خوشبو کو محسوس کیا۔ ہم نے انسان کو انسان کے روپ میں دیکھا۔ ہم نے عشاءکے بعد فوراً سونے پر نیند کا مزہ چکھا اور فجر کے بعد پھوٹتی روشنی کا نور دیکھا۔ سچ پوچھو تو ہم نے عام سے پتھر کو بھی کوہِ نور دیکھا۔
