عوامی موثر احتجاج، یونان بھی اسرائیلی سفارتکاروں کیلئے غیرمحفوظ ہوگیا

رپورٹ: علی ہلال
عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق یونان میں اسرائیلی سفارتکاروں کے خلاف شدید عوامی غصے اور احتجاج کے بعد انہیں واپس بلا لیا گیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق قابض ریاست نے اپنے سفارت خانے کے عملے کو یونان سے اُس وقت نکال لیا جب ملک میں اسرائیل مخالف احتجاجات شروع ہوئے۔اسرائیلی جریدے ’اسرائیل ہیوم‘ نے رپورٹ کیا کہ یونان کے دارالحکومت ’ایتھنز‘ میں عوامی احتجاج کی وجہ سے اسرائیلی سفارت خانے کے عملے کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔جریدے کے مطابق یونان کی بائیں بازو کی جماعت 10 اگست کو ’غزہ کی طرف مارچ‘ کا اعلان کر چکی ہے تاہم مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔
اسی تحریک کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان جسے عبرانی اخبار نے شائع کیا، میں کہا گیا یونانی قوم اس نسل کشی پر خاموش نہیں بیٹھے گی جو اسرائیل غزہ میں مغرب اور یونانی حکومت کی حمایت اور ملی بھگت سے انجام دے رہا ہے‘۔اس کے علاوہ ایتھنز کی میونسپل اتھارٹی نے بھی غزہ کے حق میں ہونے والی عوامی مہم کے دوران اسرائیلی سفیر کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔ منگل کے روز یونانی کمیونسٹ پارٹی نے یونان میں اسرائیلی سفیر ’نعوم کاٹس‘ کے ان بیانات کی مذمت کی ہے جن میں انہوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کی دیواروں پر فلسطین کے حق میں لکھے گئے نعروں پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ پارٹی نے ایک بیان میں سفیر کاٹس کے ان بیانات پر تنقید کی جن میں انہوں نے اسرائیلی سیاحوں کے لیے سکیورٹی خدشات کا ذکر کیا تھا اور انہیں ’شرمناک بیانات‘ قرار دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اِن بیانات کا سبب صرف یہ نہیں کہ وہ ایک قاتل ریاست کے نمائندے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ اب یونانی حکومت اسرائیل کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کے بہانے فلسطینی عوام کے خلاف کیے جانے والے جرائم کی اصل محافظ بن چکی ہے۔اس سے قبل یونان میں اسرائیلی سفیر ’نوعام کاٹس‘ نے ایتھنز میں فلسطینی حمایت میں بنے گرافیتی (دیواروں پر تصویری یا تحریری پیغامات) پر مقامی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا اور کہا تھا کہ یہ ’اسرائیلی سیاحوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں‘۔ جس پر یونانی سیاسی و عوامی حلقوں میں شدید غصہ اور مذمت کی لہر دوڑ گئی۔ جواب میں ایتھنز کے میئر ’ہاریس دوکاس‘ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اس مداخلت کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
دوکاس جو اپوزیشن کی سوشلسٹ جماعت ’پاسوک‘ کے رہنما بھی ہیں نے کہاکہ ایتھنز میونسپلٹی ان لوگوں سے جمہوریت کے لیکچر سننے کو تیار نہیں جو روزانہ غزہ میں شہریوں اور بچوں کو بمباری، بھوک اور پیاس سے مار رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ ایتھنز جو ایک جمہوری ملک کا دارالحکومت ہے، اپنے زائرین کا احترام کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے شہریوں کے اظہار رائے کی آزادی کے حق کا بھی دفاع کرتا ہے۔ یونانی عہدیدار نے زور دیا کہ جن گرافیتی کا اسرائیلی سفیر نے ذکر کیا تھا انہیں زیادہ تر ہٹا دیا گیا ہے، تاہم انہوں نے مزید کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ سفیر دیواروں پر لکھی تحریروں پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک بے مثال نسل کشی کی جا رہی ہے جس پر ان کی توجہ کبھی نہیں گئی۔
رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد یونانی دارالحکومت ایتھنز سمیت دیگر کئی شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے، جن کی قیادت اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کی۔ ان مظاہروں میں جارحیت کی شدید مذمت اور عام شہریوں کے خلاف قتل عام کو روکنے کے مطالبات پر مبنی نعرے بلند کیے گئے۔ حال ہی میں ایک احتجاج ’کراون اَیرِس‘ نامی کروز شپ کے خلاف بھی کیا گیا جو کچھ یونانی جزیروں پر لنگرانداز ہوئی تھی اور اس پر سینکڑوں اسرائیلی سیاح سوار تھے۔ اس واقعے نے یونانی حکومت کے اسرائیلی قبضے کے ساتھ مبینہ تعاون پر عوامی غصے کو مزید بڑھا دیا۔ اسرائیلی قبضے کی جانب سے امریکی اور مغربی حمایت کے ساتھ غزہ پر جاری جنگ کے دوران فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 2 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد جاںبحق یا زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ 9 ہزار سے زائد افراد ملبے تلے لاپتا ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ قحط کی شدت میں اضافے سے درجنوں افراد جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ 22 ماہ سے جاری غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کو اپنی عالمی حیثیت میں غیرمتوقع گراوٹ کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے قریبی مغربی اتحادی بشمول برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کھل کر تنقید کررہے ہیں اور بعض نے ممکنہ پابندیوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ برطانوی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں، اسرائیلی سفیر کو طلب کیا ہے اور چند آبادکار رہنماوں کے خلاف پابندیوں کا عندیہ دیا ہے۔ فرانس اور کینیڈا نے بھی اسرائیلی اقدامات پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ادھر اسرائیل کے اندر معاشی بحران کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں جن سے اربوں ڈالر کے نقصانات کا اندیشہ ہے۔ وزارت خارجہ نے موجودہ حالات کو ’تاریخی طور پر بدترین سفارتی بحران‘ قرار دیا ہے۔ تل ابیب میں سفارتی ذرائع اس دباو کو ’سفارتی سونامی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں جس سے نیتن یاہو حکومت کو بین الاقوامی سطح پر شدید شرمندگی کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بحران اسرائیل کے روایتی اتحادیوں سے تعلقات کے ٹوٹنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہ سارا منظرنامہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا اسرائیل موجودہ جنگی پالیسی پر نظرثانی کرے گا یا عالمی تنہائی کی طرف مزید بڑھتا چلا جائے گا۔