جولائی 2025ء، غزہ نسل کشی میں شریک 7 اسرائیلی فوجیوں کی خودکشی کا ریکارڈ قائم

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت نہ صرف اہلِ فلسطین کے لیے ہر قسم کے انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے بلکہ خود قابض فوج کے اندر نفسیاتی زوال، خودکشیوں اور بے یقینی کی ایک خاموش لیکن مہلک لہر کو بھی بے نقاب کررہی ہے۔
جولائی 2025ء کے اختتام تک اسرائیلی دفاعی اداروں اور معتبر ذرائع ابلاغ کے مطابق محض ایک ماہ میں اسرائیلی فوج کے سات (7) اہلکاروں نے خودکشی کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ان میں بیشتر ریزرو اہلکار شامل تھے جو غزہ میں زمینی کارروائیوں کا حصہ رہ چکے تھے۔یہ خودکشیاں محض انفرادی المیے نہیں بلکہ ایک اجتماعی جنگی صدمے (Collective Combat Trauma) کی عکاس ہیں جس نے اسرائیلی فوج کے حوصلے، اندرونی ڈھانچے اور اعصابی استحکام کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔
جولائی نہیں، پورا سال خونی رہا
اسرائیلی اخبار ’ہارٹس‘ اور دیگر اداروں کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اکتوبر 2023ء تا دسمبر 2023ء کے دوران 17 فوجی اہلکاروں نے خودکشی کی تھی۔ پھر نسل کشی کی جنگ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی خود کشیوں میں بھی مزید اضافہ ہونے لگا۔ سال 2024ء میں یہ تعداد بڑھ کر 24 ہوگئی لیکن رواں سال 2025ء (جنوری تا جولائی) مزید 18 فوجی خودکشی کرچکے ہیں، جن میں سے سات صرف جولائی کے مہینے میں رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار ان اہلکاروں سے متعلق ہیں جن کے بارے میں تحقیقاتی اداروں نے سرکاری سطح پر خودکشی کی تصدیق کی جبکہ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اسرائیلی فوج ایسے کیسز کو اکثر خاموشی سے دبا دیتی ہے تاکہ مورال پر اثر نہ پڑے۔
دو کہانیاں، ایک المیہ
رپورٹ میں نمایاں ذکر روعی فاسرشٹائن کا ہے جو اسرائیلی فوج کی 401 بکتربند بریگیڈ کا حصہ تھا اور جنگ کے 300 سے زائد دن غزہ میں متحرک رہا۔ اس کا تعلق طبی انخلا کی یونٹ سے تھا جہاں اسے لاشیں اٹھانے، زخمیوں کو نکالنے اور دھماکوں کے بعد کے ہولناک مناظر کا سامنا رہتا۔ وہ جولائی کے آغاز میں اچانک اپنے گھر میں مردہ پایا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے بعد فوج نے اسے خودکشی قرار دیا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ فوج نے اس کی موت کو ’ڈیوٹی کے دوران‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسے فوجی اعزازات کے بغیر عام شہری کے طور پر دفنایا گیا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ آرئیل تامان کے ساتھ پیش آیا جو لاشوں کی شناخت کے یونٹ میں کام کرتا تھا۔
اس نے بھی جولائی کے وسط میں خودکشی کرلی۔ وہ ان فوجیوں میں شامل تھا جو جنگ میں ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی باقیات کو اکٹھا کرکے شناخت کے عمل سے گزرتے ہیں جو کہ ایک انتہائی صدماتی اور اذیت ناک کام ہے۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے انکشاف کیا ہے کہ سارجنٹ ایریل مئیر طایمان جو اسرائیلی فوج کے مذہبی یونٹ میں لاشوں کی شناخت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہا تھا، اُس نے جنوبی شہر اوفکیم میں اپنے گھر میں خود کو مار دیا۔ وہ شدید نفسیاتی دباو میں تھا جبکہ ’حدشوت لو تسنزورا‘ نامی ویب سائٹ نے مزید ہولناک تفصیلات بیان کی ہیں:ایریل دن میں کئی مرتبہ غسل کرتا تھا اور اپنے دوستوں سے کہتا: ’مجھے اپنے کپڑوں میں لاشوں کی بو آتی ہے، میرے ساتھیوں کی لاشیں، دشمن کی لاشیں، میں یہ سب بھول نہیں پارہا!‘ اور آخرکار وہ برداشت نہ کرسکا اور خودکشی کرلی۔ یہ غزہ جنگ کے بعد خودکشی کا 45واں واقعہ ہے۔
یہ انحطاط صرف محاذ پر نہیں بلکہ اب یہ اُن کے گھروں میں داخل ہوچکا ہے اور دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ قاتل دہشت گرد جب گھر لوٹتے ہیں تب بھی یہ اذیت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس کے باوجود نیتن یاہو حکومت اب بھی ’طویل جنگ‘ کی بات کرتی ہے۔ اب بھی انہی نفسیاتی مریضوں کو دوبارہ غزہ واپس بھیجنے کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں، گویا انہیں ایک بار پھر جہنم میں دھکیلا جا رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ اب فوجی ڈسپلن کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض اہلکار محاذ پر جانے سے انکار کردیتے ہیں۔ کل ہی ناحال بریگیڈ کے تین فوجیوں نے غزہ میں دوبارہ لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں کے بعد شدید ذہنی بحران کا شکار ہیں۔ پہلے انہیں نافرمانی پر جیل بھیجا جارہا تھا مگر عوامی احتجاج نے فوج کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ اب ان کی سزا معطل کر دی گئی ہے اور انہیں میدانِ جنگ سے ہٹا کر غیرجنگی کاموں پر لگا دیا گیا ہے۔ (ٹائمز آف اسرائیل)
اسرائیلی فوجی نظام کی بے حسی
ان خودکشیوں کے پیچھے نفسیاتی اسباب کو سمجھنے کے لیے ماہرین نفسیات اور عسکری اُمور کے تجزیہ کاروں نے چند اہم نکات کی نشان دہی کی ہے: ٭شدید جنگی صدمہ (PTSD): ہزاروں فوجی غزہ میں انسانیت سوز مناظر دیکھ چکے ہیں۔ زخمی بچوں کی چیخیں، بمباری میں جلے ہوئے جسم، ملبے سے نکلتی لاشیں، یہ تمام مناظر اُن کے لاشعور میں ایسے زخم چھوڑتے ہیں جنہیں کوئی طبی دوا نہیں بھرتی۔ ٭بحالی مراکز پر دباو¿: اسرائیلی فوجی اسپتالوں اور بحالی مراکز میں ذہنی امراض میں مبتلا اہلکاروں کا رش دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ فوجی ریڈیو کے مطابق صرف جون اور جولائی کے درمیان سینکڑوں فوجیوں نے دماغی و نفسیاتی علاج کے لیے درخواست دی۔ ٭ریزرو اہلکاروں کی بے قدری: غزہ میں تعینات ریزرو اہلکار جب واپس آتے ہیں تو انہیں ایک وقتی آلہ کار سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ نہ انہیں سماجی مدد دی جاتی ہے نہ معاشی استحکام، نہ ہی نفسیاتی سپورٹ۔ یہی بے رخی انہیں تنہائی اور پھر خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ ٭سینسرشپ اور خاموشی کی پالیسی: اسرائیلی دفاعی ادارے اکثر خودکشیوں کی خبروں کو عوامی سطح پر محدود رکھتے ہیں تاکہ داخلی مورال پر منفی اثر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اہلکاروں کے خاندان میڈیا میں سامنے آ کر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔
مزاحمت کا خوف اور اندرونی انتشار
یہ تمام واقعات اُس وقت ہو رہے ہیں جب غزہ میں اسرائیلی بمباری، زمینی کارروائی، قحط اور محاصرے سے 2 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہوچکے ہیں، 9 ہزار سے زائد افراد اب بھی لاپتا ہیں، 50 فیصد سے زائد عمارتیں زمیں بوس ہوچکی ہیں۔ سینکڑوں بچے قحط، بیماری اور صدمے کا شکار ہوکر جان گنوا بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے جا چکے ہیں، جس سے اسرائیلی فوجیوں میں ایک گہرا اخلاقی خلا اور بوجھ پیدا ہوا ہے۔ یہ بوجھ صرف بندوق یا میزائل سے نہیں بلکہ ضمیر کے اندر جنگ کے روپ میں گھس جاتا ہے۔
مستقبل کا اشارہ اور اندرونی شکست
یہ سوال اب شدت اختیار کرچکا ہے کہ کیا اسرائیلی فوج محض جنگی ساز و سامان سے لیس رہ کر ایک طویل جنگی دباو کو برداشت کر پائے گی؟ اگر فوج کی ذہنی ساخت ہی ٹوٹ چکی ہو، اگر ریزرو اہلکار اعتماد کھوچکے ہوں، اگر جنگی جرائم کی ذمہ داری کا بوجھ سپاہیوں کو اندر سے کھوکھلا کررہا ہو، تو پھر جیتنے کے تمام ہتھیار ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ جولائی 2025ء میں اسرائیلی فوج میں ہونے والی خودکشیاں محض فرداً فرداً اموات نہیں بلکہ ایک گہرے اندرونی انتشار، ضمیر کی چبھن اور بے مقصد خونریزی کے خلاف اٹھنے والی ایک خاموش بغاوت ہیں۔ یہ ان فوجیوں کی چیخیں ہیں جو ظلم کا حصہ بن کر بھی ذہنی طور پر اِس بوجھ کو نہیں اٹھا سکے۔ دنیا کو صرف یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ غزہ میں کیا جل رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر کیا کچھ ٹوٹ رہا ہے۔