پاکستان نے غزہ میں امداد اور ایندھن کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا قحط سے دوچار غزہ کو مزید برداشت نہیں کر سکتی، غزہ میں بھوک کے باعث فلسطینیوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
عاصم افتخار کا کہنا تھاکہ اسرائیلی قبضے کا خاتمہ امن کے لئے ضروری ہے، فلسطینی قیدیوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے، فلسطین ریاست کیلئے فرانس اور سعودی عرب کی کانفرنس میں مثبت نتائج کی امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں موجودہ امدادی نظام ان لوگوں کو ناکام کر رہا ہے جن کی خدمت کا دعویٰ کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک امداد سے جڑے 798 افراد شہید کیے جا چکے ہیں جن میں سے 615 امدادی مراکز یا ان کے قریب مارے گئے۔
مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام مجبور فلسطینیوں کو فعال جنگی علاقوں میں دھکیل دیتا ہے، تاکہ وہ بنیادی ضروریات حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو امداد غزہ پہنچی ہے وہ نہایت قلیل ہے، اس کا نفاذ ناقص ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ بدترین بات یہ ہے کہ یہ نظام خود موت کا جال بن چکا ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ زندگی بچانے والی امداد خاص طور پر بچوں کے لیے دودھ کی فراہمی کی بندش ناقابلِ دفاع سطح تک پہنچ چکی ہے۔ نومولود بچے بھوک سے فوری موت کے خطرے میں ہیں۔ ایسی محرومی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضروری اشیاء کی بلارکاوٹ ترسیل کو فوری ممکن بنایا جائے۔
عاصم افتخار کا مزیدکہنا تھا کہ غزہ میں ادویات، پناہ گاہوں اور ایندھن کی شدید قلت بڑھ رہی ہے جس سے اسپتالوں، پانی و صفائی کے نظام، ٹیلی کمیونیکیشن، بیکریوں، ایمبولینسوں اور امدادی کاموں کا بند ہونا یقینی ہے۔ 21 لاکھ کی آبادی کے لیے یہ ایک تباہ کن نکتہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایندھن، طبی امداد اور پناہ گاہوں کے سامان کو فوراً غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ امدادی نظام ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے، اقوام متحدہ کے غیر جانبدار امدادی نیٹ ورک کی جگہ، ایک عسکری اور منتخب نظام دینا انسانی قانون کی بنیادی اقدار اور غیرجانبداری کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے اثرات صرف غزہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مستقبل کے تنازعات میں بھی شہریوں کی حفاظت خطرے میں ڈال دیں گے۔